حضور اکرم نے اسلام کے اوّلین دور میں مختلف غزوات میں مشکل موقعوں پر جب بھی علم مولیٰ علیؑ کے حوالے کیا تو ایسے ایسے معجزات نے جم لیا کہ انہوں نے ہاری ہوئی بازی کو پلٹ کر رکھ دیا۔ مولیٰ علیؑ کی ذات پر نہ صرف حضور اکرم کو ہی اعتماد نہ تا بلکہ ان کے اصحابہ کرامؓ بھی ان پر فخر کرتے تھے۔ آج کے دور میں عالم اسلام بھی جس طرح کے خطرات سے دوچار ہے جس طرح چارگاہ دو عالم میں دشمنوں نے گھیرا ہوا ہے اس کا تقاضہ یہ ہی ہم سب کو مولیٰ علیؑ کے اسوائہ عمل کرتے ہوئے متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ مولیٰ علیؑ کی ذات مسلمانوں کے تمام طبقات اور عقائد رکھنے والوں کے لئے یکساں احترام اور محبت کی حامل ہے۔ حضرت صبا اکبر آبادی نے مولیٰ علیؑ کی شان میں جو اشعار کہے، یوم علیؑ کے حوالے سے پیش خدمت ہیں تاکہ مسلمان آپس میں متحد ہو کر دشمنوں سے مقابلہ کے لئے تیار رہیں۔
ہادی علیؑ رفیق علی رہنما علیؑ
منزل علیؑ مراد علی مدعا علیؑ
ساحل علیؑ سفینہ علی ناخدا علیؑ
ان سے جدا نبی نہ نبی سے جدا علیؑ
پھیلی ہوئی شمیم اخوت کے پھول کی
ٹھنڈی تھیں ان کو دیکھ کے آنکھیں رسول کی
آئینہ ضیائے رخ مصطفیٰ علیؑ
تصویر حسن روئے حبیب خدا علیؑ
جلوہ علی جمال علی حق نما علیؑ
امت میں اور رسول میں اک واسطہ علیؑ
ان میں تجلی رخ دلجوئے مصطفیٰ
دیکھا انہیں تو دیکھ لیا روئے مصطفیٰ
ہر سانس جس کی گلشن اسلام کی بہار
مختار دیں متاع پیمبر کا ورثہ دار
ایمان کا وقار شریعت کا افتخار
مذہب کا اعتماد، طریقت کا اعتبار
سینے میں بحر، علم مدنی لئے ہوئے
نظریں رخ رسول کی جانب کئے ہوئے
پیدا ہوئے تو کعبہ پکارا کہ مرحبا
کھولی جو آنکھ سامنے تھا روئے مصطفیٰ
پھر کچھ سنبھالا ہوش تو بعثت کا دور تھا
پہلے انہیں کو دولت ایماں ہوئی عطا
خادم ملک ہیں جن کے وہ انسان ہیں یہی
اہل نظر میں سابق الایمان ہیں یہی
کیونکر نہ ہوتے سارے زمانے سے سرفراز
یہ ذات وہ ہے جس پہ نبی نے کیا ہے ناز
ہر ایک رازِ حق کے تھے یہ آشنائے راز
حاصل ہے یہ انہیں کو زمانے میں امتیاز
بے شک یہ انتخاب خدا و رسول ہیں
داماد مصطفیٰ کے ہیں زوج بتول ہیں
چشم نبی میں سارے زمانے سے معتبر
زوج بتول شبر و شبیر کے پدر
ہیں بس یہی مدینہ علم نبی کا در
اسلام کا حصار تو ایمان کی سپر
ایمان کی دیکھ بھال میں شام و سحر رہے
اسلام پر ہو وار تو سینہ سپر رہے
اللہ رے رسول کا حیدر پہ اعتماد
ہر سخت معرکے میں کیا ہے انہی کو یاد
تعمیل حکم کرکے ہمیشہ ہوئے یہ شاد
تلوار سے جہاد کبھی نیند سے جہاد
آیا نہ خوف جاں دل پر اعتماد میں
شامل تھی نیند بھی شب ہجرت جہاد میں
ہجرت کی شب ملا انہیں بستر رسول کا
محضور چار سمت سے تھا گھر رسول کا
نرغے میں دشمنوں کے بر اور رسول کا
تنہا علی کی ذات تھی لشکر رسول کا
دل میں رسول حق کی محبت لئے ہوئے
سوتے تھے اپنی جاگتی قسمت لئے ہوئے
راہ خدا میں کون تھا ان کا سا جان فروش
سر بر کف ورجز بہ زبان و کفن بدوش
ایک اک نفس میں خدمت دین نبی کا جوش
حق کوش حق پسند حق آگاہ حق نیوش
ہمت کو رزم گہ میں نہیں ہارتے ہیں یہ
وقت جہاد موت کو للکارتے ہیں
ان کی نظر میں موت حیات ابد کا نام
ان کی نگاہ واقف اسرار صبح و شام
تھا ان کے مشوروں پہ ہی اسلام کا نظام
ذات اُن کی تھی حبیب رسول فلک مقام
شان خلوص و رنگ ریا جانتے تھے یہ
کھوٹے کھرے کے فرق کو پہچانتے تھے یہ
دنیا بدل گئی تھی جو بعد رسول پاک
گلزار دیں میں چاروں طرف اڑ رہی تھی خاک
حیدر کو تھا حفاظت قرآن میں انہماک
اظہار حق میں کوئی تکلیف نہ کوئی پاک
کوئی خلاف شرع اگر لب کشا ہوا
نعرہ بلند حق کا کیا گونجتا ہوا
جاری منافقوں سے رہی تاحیات جنگ
دبنے نہ پائی خدمت اسلام کی امنگ
باطل کے رخ کی پردہ دری میں نہ تھا رنگ
مذہب کے تھے محافظ ناموس و نام و ننگ
ایماں کی سمت سے کبھی آنکھیں نہ بند کیں
ہر مرحلے پہ حق کی صدائیں بلند کیں
کارعلی، حریم نبوت کی دیکھ بھال
دست خدا کی تیغ تو دست نبی کی ڈھال
ہمسر ہو کوئی ان کا زمانے میں کی مجال
خیبرشکن، زعیم عرب، فاتح جدال
ہاتھوں نے ان کے مانگ بھری تھی بتول کی
اس آئینے میں چھوٹ تھی نور رسول کی
نور محمدی سے ہے قلب علی میں تاب
خورشید ہیں رسول خدا یہ ہیں ماہتاب
ان کے کمال و فضل کا ممکن نہیں حساب
ان کا نسب ہے نور، لقب ان کا بوتراب
ان کی ضیاءسے خاک کے طبقے دمک گئے
مٹی کو مس کیا تو ستارے چمک گئے
ان پر عطائے رحمت باری ہے بے شمار
ان کی نظر کے ساتھ زمانے کی تھی بہار
ان کی سخاوتوں کا بیاں کیا ہو بار بار
بخشے تھے ان کو مرتبے اللہ نے ہزار
وجہ فروغ ذات ہیں وہ کام دے دیئے
قدرت نے دست خاص سے انعام دے دیئے
قرآن جس نے لکھا قلم وہ انہیں ملا
جس پر نبی کو فخر، حشم وہ انہیں ملا
اب تک ہے جزو اسم، کرم وہ انہیں ملا
کوئی نہ لے سکا جو علم وہ انہیں ملا
دنیا جھکی تھی عظمت کردار دیکھ کر
جبریل پَر بچاتے تھے تلوار دیکھ کر
ان کی نظر مزاجِ رسالت سے آشنا
ان کا مزاج خلق و مروت سے آشنا
ان کا جلال رمز شجاعت سے آشنا
ان کی زبان، نہج بلاغت سے آشنا
وہ روشنی علم درونی نہ آسکی
دنیا میں پھر صدائے سلونی نہ آسکی
نور نبی سے ذات علی ہے قریب تر
وہ شہر علم ہیں تو یہ اس شہر کے ہیں در
تفریق و فصل کا نہیں ان پر کوئی اثر
اک نور حق فروغ ادھر ہے وہی ادھر
جس میں ضیائے حق ہے وہ عالی گہر علی
احمد نہال نور خدا ہیں، ثمر علی
میں کس طرح علی کے فضائل بیاں کروں
ذرّہ ہوں کیسے حوصلہ آسماں کرو
یہ نام پاک وہ ہے جسے حرزِ جاں کروں
جبریل ساتھ دیں تو انہیں ہم زباں کروں
دیکھا جو اپنا حسن رقم وجد کر گیا
لکھا علی کا نام قلم وجد کرگیا
نفس رسول نازش اراض و سما علی
بازو رسول پاک کے، دست خدا علی
مولائے کائنات خدا آشنا علی
ہر قلب کی مراد علی مدعا علی
جس کے قدم پہنچ گئے باب قبول پر
معراج ہو گئی جسے دوش رسول پر
مولود کعبہ شاہ نجف اوّلیں امام
خیبر کشا زعیم عرب حامی عوام
جبریل کے پروں پہ لکھا ہے انہی کا نام
ان پر سلام ان کے کمالات پر سلام
جوہر اس آئینے کے بہت متجلی ہوئے
معراج کے گواہ خداد علی ہوئے
حاصل ہے ان کے نام کو اعلیٰ سے اشتقاق
ان کے ورود کا تھا محمد کو اشتیاق
ان کے ہر اک عمل سے رسالت کو اتفاق
دُلدُل انہیں زمیں پہ ملا ثانی براق
رکھ کر لحاظ طبع جلالت شعار کا
تحفہ ملا خدا سے انہیں ذوالفقار کا
وہ ذوالفقار جس کی برش مرگ دشمنان
وہ ذوالفقار جس نے دیئے لاکھ امتحاں
بدرو احد میں خیبر و خندق میں ضوفشاں
وہ ذوالفقار جس سے اجل مانگتی اماں
نکلی فروغ جلوہ وحدت کے واسطے
چمکی نماز حق کی حمایت کے واسطے
پایا رسول پاک نے جو تحفہ نماز
تھی ذوالفقار اس کی نگہباں بہ فخر و ناز
قائم رکھی صلوٰة خداوند کارساز
اس کی عطا میں قدرت حق کا بھی تھا یہ راز
چمکی احد میں اور کبھی بدروحنین میں
ہونا تھا جلوہ گر اسے دست حسین میں
