عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 596

آئی ایم ایف کا شکنجہ

میں وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان اور آرمی چیف قمر باجوہ سے ہاتھ جوڑتے ہوئے یہ التماس کرتا ہوں کہ جتنی جلد ہی ہو سکے وہ آئی ایم ایف، عالمی مالیاتی فنڈ سے اپنا پیچھا چھڑائیں کیونکہ مذاکرات کے نتیجے میں جس طرح کے مطالبات اور شرائط سامنے آرہی ہیں ان کی تکمیل تو کجا ان پر تبادلہ خیال کرنا بھی پاکستان کی خودمختاری اور اس کی سلامتی پر سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف کے اس طرح کی شرائط نے ان کے عزائم بے نقاب کر دیئے ہیں کہ وہ پاکستان کو قرضہ اس کی آزادی سلب کرنے کی صورت میں دینا چاہتے ہیں اور وہ قرض کے بدلے پاکستانیوں کی آزادی اور غیرت گروی رکھنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے قرض لینے سے تو بھوکا مر جانا ہی بہتر ہے۔ اس لئے وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف کو چاہئے کہ وہ آئی ایم ایف کے اس ملک دشمن شکنجے میں آنے کی بجائے دوست ممالک کے پاس جا کر ان سے امداد حاصل کریں۔ دوست ملکوں سے بھیک مانگنا آئی ایم ایف کے ہاتھوں ملک گروی رکھنے سے لاکھ گناہ بہتر ہے۔ آئی ایم ایف قرضہ دینے کی شکل میں براہ راست پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کررہا ہے۔
ہر ملک کے دوسرے ملکوں سے کئے جانے والے ریاستی معاہدے رازداری کے متقاضی ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف پاکستان کے چین اور متحدہ عرب امارات سے کئے جانے والے معاہدوں کی تفصیلات مانگ رہا ہے۔ کل تو وہ پاکستان کی خفیہ ایٹمی پلانٹ سے متعلق بھی تفصیلات مانگ لے گا۔ اس طرح کے تمام تر مطالبے اور شرائط ملک کی سلامتی کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں۔ اگر اہم آئی ایم ایف سے قرضہ ہی نہ لیں تو اس آفت سے جان چھوٹ جائے گی۔ اس لئے میں اس کالم کے ذریعے بار بار عمران خان صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ آئی ایم ایف کے سنہرے جال میں پھنسنے سے خود کو بچائیں۔ آخر ذوالفقار علی بھٹو نے بھی تو کہا تھ اکہ ”ہم گھاس کھا لیں گے لیکن اپنے ایٹمی پروگرام کو ختم نہیں کریں گے“۔ آج بالکل وہی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جس کے ذمہ دار دونوں بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ہیں جن کے دور حکومت میں اسی آئی ایم ایف سے انتہائی آسان شرائط پر بھاری قرضہ لیا گیا تھا اس وقت قرضہ دینے اور لینے والی دونوں کو معلوم تھا کہ قرضہ کس مقصد کے لئے لیا جارہا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کا قرض دینے کا مقصد پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مقروض بنانا تھا تاکہ پاکستان کی وہ حالت کردی جائے کہ اس میں حامل قرض کا سود دینے کی بھی سکت باقی نہ رہے اور اس کے بعد جب پاکستان آئی ایم ایف سے مزید قرضہ مانگے تو پاکستان پر اس طرح کی کڑی شرائط لگائیں کہ پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی خطرہ میں پڑ جائے۔
صورتحال واضح ہے کہ ملک دشمن قوتیں عالمی مالیاتی ادارے کے ذریعے پاکستان کو اس کے سلامتی کے سب سے بڑے ہتھیار سے محروم کرنے کی سازشیں کررہے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے ساتھ ساتھ آرمی چیف قمر باجوہ کو بھی اس جانب توجہ دینی چاہئے اور آئی ایم ایف سے فوری طور پر اپنی جان چھڑائیں جو ماہرین آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا مشورہ دے رہے ہیں وہ ان کے ایجنٹ ہیں جو پاکستان کو ان کے ہاتھوں ٹریپ کروا رہے ہیں۔ وہ کون ہوتے ہیں جو ہماری کرنسی کو ڈی ویلیو کرنے والے۔۔۔؟؟؟ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور اس نے اپنے فیصلے خود کرنے ہیں۔ دوسروں کی ڈکٹیشن پر نہیں۔ وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو چاہئے کہ وہ احتساب کے خلاف آپریشن مزید تیز کروائیں اور قومی احتساب بیورو قومی خزانہ لوٹنے والوں سے لوٹی جانے والی دولت کو واپس لانے کے لئے اقدامات تیز کریں اس سلسلے میں حکومتی اعلیٰ عدلیہ اور قومی احتساب بیورو ایک ٹرائینگل بن کر مربوط طریقے سے اقدامات کریں۔ اس لئے کہ ملک کو مالی معاملات چلانے کے لئے خطیر سرمائے کی ضرورت ہے اس سرمائے کی جو قومی خزانے سے پچھلے دس برسوں کے دوران بے رحمی سے لوٹا گیا۔ اب اسی طرح سے بے رحمی کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو ملک کو اس نہج تک لے جانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس مہم کے دوران حکومت اور نیب سیاستدانوں کی بلیک میلنگ اور پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی دھمکیوں کو بالکل بھی خاطر میں نہ لائے اور نہ ہی قومی لٹیروں کی وکالت کرنے والے میڈیا پر کان دھریں۔ کچھ بھی کریں۔ خدارا ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں غلام ہونے سے بچائیں۔ آئی ایم ایف سے کئے جانے والے تمام مذاکرات فوری طور پر ختم کردیں اور ان سے واشگاف الفاظ میں کہہ دیں کہ ہمیں اس طرح کے کسی بھی قرضے کی ضرورت نہیں۔ جس کے لئے ہمیں اپنی آزادی اور غیرت کو گروی رکھنا پڑے۔ ہمیں اپنی آزادی، اپنی عیاشی سے زیادہ عزیز ہے۔ ہم بھوکے مرنا پسند کریں گے لیکن غلام بن کر محلوں میں رہنا پسند نہیں کریں گے۔ حکومت اس ”ہٹ مین“ کو لندن سے پاکستان لانے کا بندوبست کرے جو میر جعفر اور میر صادق بن کر پاکستان کو غلام بنائے جانے کا باعث بن رہا ہے۔ ان کا انصاف کے کٹہرے میں لانا پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اسی میں پاکستان کی بقاءاور فلاح مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں