دنیا جہاں میں دستور ہے کہ قومی اور ملکی معاملات میڈیا عوام کے سامنے اجاگر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی معاملات کو بھی قومی اور ملکی تناظر میں زیربحث لاکر بتاتا ہے کہ ان سے ملک کے معاملات پر کس قسم کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ اس میں جہاں ایک طرف ملکی سیاست زیربحث مباحثہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی تبدیلیوں کا اثر بھی ملکی پالیسیوں پر کیا ہوگا بتایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں پریس کو جمہوریت کا ایک ستون قرار دیا جاتا ہے اور اس قدر ہم ستون ہے کہ کسی ملک اور قوم کی ساری عمارت کی سلامتی میں اس کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ پریس ہی ہے جو مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ پر نظر رکھتا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو اجاگر کرتا ہے بلکہ یہی نہیں بلکہ پریس ہی کسی ملک اور قوم کی نبض گردانا جاتا ہے کہ کتنی فعال، صحت مند اور توانا ہے اس طرح پریس ایک ایسا معیار ہے جس پر قوم کو پرکھ سکتے ہیں۔ فرانس کے قدیم ترین اخبار “LAFIGARO” کی پیشانی پر یہ تاریخی الفاظ لکھے ہوتے ہیں کہ:
“PRESS AND NATION RISE AND FALL TOGETHER”
یعنی پریس اور قوم کا عروج اور زوال لازم اور ملزم ہیں۔ ہم آج کے ترقی یافتہ دور میں جہاں کہ کوئی بات اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، دیکھتے ہیں کہ اخبارات یا الیکٹرونک میڈیا پر شائع یا چلنے والی مختصر سی خبر نے حکومتوں کو ہلا ڈالا۔ سیاست دانوں کی پول کھول کر انہیں ہیرو سے زیرو بنادیا۔ ملک کی کرپشن اور لوٹ مار کو ظاہر کرکے احتساب کے عمل کو اس کی راہ دکھائی، اس میں کسی کو بھی نہیںبخشا گیا کہ وہ کتنا بڑا شخص یا اس کے پیچھے کتنی بڑی طاقت ہے بلکہ قانون نے اپنا کردار ادا کرکے اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔
یہ تو دعویٰ نہیں کیا جاتا کہ ساری دنیا سے برائی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا ہاں یہ ضرور ہوا کہ برائی کرنے والے کے انجام سے برائی کرنے والے خوفزدہ ہوئے اور پھر کئے کی سزا پا کر عبرت کی نشان بن گئے۔ آج بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں کہ چین میں سینکڑوں بدکردار افراد کو گولی مار دی گئی۔ امریکہ میں بڑے بڑے سرمایہ دار کو سزا سنا کر جیل میں ڈال دیا گیا اس طرح کے واقعات آئے دن خبروں میں آتے رہتے ہیں مگر ہم نے اس سلسلے میں اپنا ہی معیار بنا لیا کیونکہ ہم تو ہم ہیں، ہمارے میڈیا نے ایک ریکارڈ یہ بنایا کہ ایک بہت بڑے ”زمین خور“ نے پورے قومی پریس کو خرید لیا، معدودے چند کہ ان کی کوئی قدر و قیمت نہیں تھی تو انہوں نے اصول پسندی اور ریاست داری کا ٹیک لگا لیا۔ اس صاحب جائیداد نے جس نے ملک کی تاریخ بلکہ ملکوں کی تاریخ میں زمینیں ہڑپیں، سابق جنرلوں کو ملازم رکھنے اور سیاست دانوں، ججوں اور حکمرانوں کو خریدنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے جس نے ایسے ایسے کو خریدا ہے جو خود دنیا کو خریدنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس فرد نے جہاں ایک طرف جمہوریت کے تین ستونوں کو خرید کر اسٹاک کرلیا وہیں اس نے پریس کو بھی ان داموں خریدا کہ جو بکنے والوں کی اوقات سے بہت زیادہ تھا اس نے انہیں انتہائی قیمتی پلاٹس دیئے، زرعی فارم دیئے، پلازے بخشے اور حسب اوقات کروڑوں روپیہ دیئے، ملکی کرنسی میں بھی اور فارن ایکسچینج میں بھی، اس نے ان قلم فروشوں کو غیر ملکی دورے کروائے بلکہ ایک یک چشم انصاف فروش کی اولاد کو ”مونٹی کارلو“ کے عالمی شہرت یافتہ جوئے خانوں میں جوئے کروڑوں ڈالر جتوئے غرض کہ اس نے ”عنایات“ کے ایسی ایسے طریقے ایجاد کئے کہ اس پر تحقیق کرکے لوگ ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگریاں حاصل کرسکتے ہیں۔ اس ”زرگر“ نے اس کلئے پر عمل نہیں کیا کہ ایک ہاتھ سے دو کہ دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو اس نے اخبارات کے ان ننگوں کو سرعام رسوا کردیا اور سب کو جو جو دیا تھا اس کا کچھا چھٹا اس نے دی گئی رقم ”چیک نمبرز“ بینکوں کے نام، جن جن کو گاڑیاں عطا کیں ان کی تفصیل، غیر ملکی دوروں کی جزئیات اور سب کے نام نامی افشا کر دیئے اس کا نتیجہ یہ نکلا وہ جو خود کو حق کی آواز، ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کے دعوے کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ صحافی وہ جس پر صحافے اترتے ہیں ایسے گونگے کا گروہ کہہ کر خاموش ہوئے گویا کہ اس ملک میں صحافت نام کی چیز ہی نہیں ہے اب اگر وہ بازی گر ایک ”حادثاتی صدر“ کا کروڑوں کا مکان اربوں میں خرید کر اسے ہزاروں ایکڑ ناجائز زمین کا درپردہ معاوضہ دے رہا ہے تو صحافیوں کی مجال کہ چوں بھی کر جائے اور پھر جس صوبے کی ہزاروں ایکڑ کوڑیوں کے مول خرید کر سادہ لوح عوام کو خیالی زمین ہیروں کے دام فروخت کرے اور خریدار دربدر بھٹکتے پھریں، ہائے واویلا کرتے رہیں مگر پریس کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ یہ تو صرف ایک معاملہ ہے اب یہ پریس لٹیروں، ڈاکوﺅں اور بدکردار سیاست دانوں کے ٹکڑے کھا کر ان کا حق ادا کررہی ہے کہ لقمہ حرام جب منہ کو لگ جائے تو پھر رزق حلال میں مزے نہیں رہتا۔ کوئی نہ کوئی صحافی کسی نہ کسی کا پٹہ اپنے لگے میں ڈال کر الیکٹرونک میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر حق نمک ادا کررہا ہے۔ اس ملک اور قوم کے مفاد میں ہے، کیا ہے کیا نہیں، ان کام صرف اپنے ممدونین کی ڈفلی بجانا ہے اور ہر اچھے کام میں کیڑے نکالنا ہے۔ ہمارے ازلی دشمن کا میڈیا جس طرح رات دن ہمارے خلاف پروپیگنڈہ کررہا ہے اور ان کی فلمیں جس طرح مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف رائے عامہ میں زہر گھول رہی ہیں، مجال ہے ہمارا پریس اس کے جواب میں ایک سطر بھی لکھ جائے۔ ہم ”امن کی آشا“ ہو کہ پریس سے رات دن قومی حکومت، مسلح افواج اور دردمند سیاستدانوں کے خلاف بحث مباحثے سنتے رہتے ہیں یا یہ کہ سامراج ممالک کے ٹکڑوں پر پلنے والے صحافیوں کو ملک کے تاریک مستبقل کی ”نوید“ سناتے دیکھتے ہیں یہ جو ان ممالک کے دوروں اور وہاں کے ڈالر اور پونڈ کے حصول کے لئے خود کو فروخت کر چکے ہیں وہ عوام کو ملک کی ایسی بھیانک تصویریں دکھاتے ہیں کہ لوگوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ آج واقعی ہم ”لی فگارو“ اخبار کی پیشانی پر لکھی ہوئی تحریر کے آئینے میں پریس اور قوم کی زبوں حالی پر مرثہ کناں ہیں۔
285