نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 422

آزادیءاظہار رائے کی حقیقت؟

پاکستان میں آزادی اظہار رائے کی جس طرح سے مٹی پلید کی جارہی ہے اس کی نظیر تو کسی بھی مہذب جموری معاشرے میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں آزادی اظہار رائے کی آڑ میں ملک کے صرف سلامتی کے اداروں کو ہی نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس طرح سے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ باضابطہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جاتا ہے اور ہر دوچار سال کے بعد گھوم پھر کر وہی کردار کوئی نیا اسکرپٹ لا کر اپنے اداروں کے خلاف زہر افشانی کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویسے بھی ملک میں ڈھائی دہائیوں سے ایک نئے ٹرینڈ نے جنم لیا ہے کہ جس کسی گمنام شخص نے چاہے اس کا تعلق کسی این جی اوز سے ہو یا پھر کسی میڈیا سے اگر اس نے اپنی ریٹنگ بڑھانی ہے اور دوسروں کی توپوں کا مرکز بننا ہے تو اسے ملک کے سلامتی کے اداروں کو اپنی مارکیٹنگ کا ذریعہ بناتے ہوئے ان پر بلا کسی وجہ کے کچھ بھی کہنا اور کچھ بھی لکھنا ہے اس کے فوری بعد ملک کی خودساختہ سوکالڈ لبرلز سول سوسائٹی کے خلاف احتجاج شروع کر دیتے ہیں اور اس طرح سے وہ گمنام لوگ جسے خود ان کے اپنے گھر والے گلی والے بھی نہیں پہچانتے، انہیں دنیا جاننے لگ جاتی ہے۔ یہ ہے ہمارے ملک کے سلامتی کے اداروں سیکورٹی فورسز کی شان ان کی عظمت ان کی آن کہ ان کا خوف اور دبدبہ ملک میں کم اور پوری دنیا میں اتنا زیادہ ہے کہ گمنام لوگوں کو خود کو دلیر اور بہادر اور نکمے صحافیوں اور دوسرے این جی اوز کو خود کو کارآمد ظاہر کرنے کے لئے یہ ٹوپی ڈرامہ کرنا پڑتا ہے اور یہ سلسلہ اب بہت پرانا ہو چکا ہے اور حقیقت پسند لوگ اس ساری صورتحال سے اچھی طرح سے واقف ہو چکے ہیں، وہ اس طرح کے نوسر باز اور مداری صحافیوں کے بہکاوے میں نہیں آتے جو ملک دشمنوں کے آلہ کار بن کر اس طرح کے ناٹک کرتے رہتے ہیں اب جو موجودہ صورتحال میں پاکستان کے سقراط اور بقراط نما صحافی نے دوبارہ سے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے ملک کے سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے اب دیکھئیے کہ کس طرح سے ریمورٹ بٹن کے دبتے ہی موم بتی مافیا کسی جانب سے اشارہ ملتے ہی اس طرح کے صحافیوں اور میڈیا ہاﺅسز کے پشت پر کھڑے دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں اس طرح سے اس میڈیا ہاﺅس اور اس طرح کے صحافیوں کا کام ہو جاتا ہے اور راتوں رات وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں یہ وہ تلخ حقیقت ہے کہ جس سے عام لوگوں سے زیادہ خود ہمارے صحافی واقف ہیں لیکن اس حقیقت کو نہ تو وہ ضبط تحریر لاتے ہیں اس لئے کہ اس سے خود ان کی حقیقت عوام کے سامنے آجاتی ہے اس لئے اس پر وہ ہمیشہ چپ سادھ ہی لیتے ہیں۔
اس وقت پاکستانی صحافت کا ایک خودساختہ سقراط اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کے لئے ہی اس طرح کا ناٹک یا ڈرامہ سول سوسائٹی اور خود موم بنتی مافیا کے ساتھ مل کر کررہا ہے اور اس طرح سے کرکے وہ اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشس کررہا ہے۔ خود صحافیوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس صورتحال سے واقف ہے کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں یہ کیا ٹوپی ڈرامہ ہو رہا ہے اور ان کی ڈوریاں کون اور کہاں سے ہلا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ گمنام ہونے کے باوجود راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ سب کچھ اپنے ذاتی مفاد کے لئے کیا جاتا ہے اور اس ساری کارروائی کے دوران ملک اور ملت کو داﺅ پر لگایا جاتا ہے جو کہ کسی بھی لحاظ سے درست نہیں، اس لئے تو کہتا ہوں کہ بحیثیت ایک ذمہ دار قوم کے ہمیں اس طرح کے عناصر کا سوشل بائیکاٹ کرنا چاہئے جو پوری قوم کے نہ صرف گمراہی کا باعث بن رہے ہیں بلکہ قوم کو اپنے ملک کے سلامتی کے اداروں سے متنفر کرواکر ملک کی در و دیواروں کو کھوکھلا کرنے کا باعث بن رہے ہیں اس طرح سے کرکے وہ ملک دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں اور اپنے اس طرح کے ملک دشمن اقدامات کو وہ آزادی اظہار رائے کا نام دے کر خود کو اور اپنی قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے اس طرح کے اقدامات سے وہ ملک کی کوئی خدمت نہیں کررہے بلکہ وہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس لئے وزیر اعظم پاکستان اور خود ملک کے سلامتی کے اداروں کے سربراہان کو چاہئے کہ وہ اس کہاوت کا مدنظر رکھ کر کہ ”کتوں کے بھونکنے سے کارواں پر کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ وہ آگے برھتا رہتا ہے“ اسی طرح سے ملک کے سیکورٹی فورسز ملک کے دفاع اور دشمنوں کے ارادوں اور ان کی چالوں کو ناکام بنانے کے لئے اپنی کارروائیاں جاری رکھیں۔ آزادی اظہار رائے کی راگ الاپنے والوں کو اپنا کام کرنے دیں اس لئے کہ ان کی حالت اس ملک میں گملے کے پودوں جیسی ہو گئی ہے ملک کی عوام میں ان کی کوئی جڑیں نہیں ملکی عوام ان کی چالاکیوں، مکاریوں اور مفاد پرستی سے اچھی طرح سے واقف ہو چکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں