تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 692

آ میں تجھ کو بتاﺅں تدبیر رہائی کیا ہے

لے کے رشوت پھنس گیا ہے تو
دیکے رشوت چھوٹ جا
دلاور فگار اپنے دور کے منفرد مزاج گو شاعر تھے۔ ان کی ادائیگی اور تحت بھی سب سے مختلف تھا، ان کے اور اکبر الہ آبادی کے درمیان ایک اور مزاج گو شاعر بھی گزرے جن کی یادگار انہیں کے خانوادے سے ثامن جعفری ہیں۔ میں ذکر کررہا ہوں سید محمد جعفری کا جن کا ایک مصرع تو ایک عرصہ تک زبان زد عام رہا۔
جس کو سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی
جو انہوں نے تجریدی مصوعی کے بارے میں ایک نظم میں کہا تھا۔ اردو ادب میں مزاج گو شاعروں میں اکبر الہ ابادی کا نام بہت مستند ہے۔ کلتہ کی اپنے وقت کی معروف مغینہ گوہر جان جو ایک کے دور کی نورجہاں کی طرح مقبول تھیں۔ اکبر الہ آبادی سے ملاقات کے لئے جانکی بائی کے ساتھ ان کے گھر گئیں۔ جانگی بائی نے تعارف کرایا اور کہا یہ کلکتہ کی نہایت مشہور مغننہ ہیں آپ سے ملنے کا بہت اشتیاق رکھتی ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے پرتباک انداز میں کہا، پہلے جج تھا، اب ریٹائر ہو کر اکبر ہوگیا ہوں، حیران ہوں کہ آپ کی کیا خدمت کروں، خیر ایک شعر بطور یادگار لکھے دیتا ہوں۔ شعر لکھ کر گوہر جان کے حوالے کیا۔ شعر تھا
خوش نصیب آج بھلا کون ہے گوہر کے سوا
سب کچھ اللہ نے دے رکھا ہے شوہر کے سوا
ایک بار اکبر الہ آبادی خواجہ حسن نظامی کے گھر مہمان تھے، کھانے میں آلو کی ترکاری ان کو بہت پسند آئی، انہوں نے خواجہ صاحب کی صاحبزادی حور بانو سے پوچھا جو کہ کھانا کھلارہی تھیں۔ آلو بہت اچھے پکے ہیں، کہاں سے آئے، حور بانو نے جواب دیا کہ میرے خالو بازار سے لائے ہیں، اس پر اکبر نے فی البدیہہ شعر پڑھا۔
لائے ہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے بازار سے آلو اچھے
اس میں کوئی شک نہیں ہیں حور کے خالو اچھے
اکبر الہ آبادی نے آلو کے ساتھ ساتھ خالو کی بھی تعریف کردی ہے۔ تو ہمیں بھی خالو کے ساتھ ساتھ آلو یاد آرہے ہیں۔ ایئر مارشل اصغر خان کراچی کے معروف خردونوش کے علاقے برنس روڈ سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ان کے مقابلے پر پیپلزپارتی کا امیدوار ناکام ہوا۔ بعد میں اصغر خان نے قومی اتحاد کی سربراہی میں بھٹو صاحب کے خلاف تحریک بھی چلائی، بھٹو صاحب نے اصغر خان کا نام رکھا۔ بھٹو صاحب مخالفین کے نام ان کی شخصیت کے مطابق رکھتے تھے، ممتاز دولتانہ کا نام چوہا رکھا، خون قیوم خان کا ڈبل بیرل خان اور اصغر خان کو نام آلو رکھ دیا۔ موجودہ زمانے میں اگر کوئی کسی کے ساتھ دھوکہ دہی کرے تو کہا جاتا ہے کہ ”فلاں نے فلاں کے آلو رکھ دیا“۔
اکبر الہ آبادی نے ایک شعر میں آلو اور خالو کی ردیف آلو رکھ رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے ایئر مارشل اصغر خان کے آلو رکھ رھک کر اُلو بنایا گیا۔ اصغر خان کا تو اپنی سادگی کی وجہ سے اس طرح کے سلوک کے شکار ہوئے۔ بعد کے سیاست دان تو قوم کی دولت ایسے لوٹتے رہے ہیں جیسے قوم نے ان کو اپنا خالو بنا رکھا ہے۔ موجودہ زمانے میں سیاست دانوں کی جو قوم کے خالو بن کر عمران خان کے ساتھ وہ ویسا ہی سلوک کرنے کے لئے متحد ہو چکے ہیں حالانکہ یہ سیاستدان اپنے اپنے وقت میں تین تین باریاں بھے لے چکے ہیں اس ہی طرح فوج نے بھی تین سے زیادہ باریاں لیں، مسلم لیگ کے مختلف دھڑے فوج کے سایہ میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے مگر عوام کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ اس تین تین باریوں کے حوالے سے ملانصیر الدین کا کردار ذہن میں گھوم جاتا ہے۔ اس کردار سے ہم سب واقف ہیں اور ان سے منسوب واقعات یا لطیفوں سے ہم سب لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔ ملا نصیر کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ ہمیشہ خیالی دنیا میں مگن رہتے تھے، ساتھ ساتھ مختلف حرکتوں کی وجہ سے بھی جانے جاتے تھے۔ ملا نصیر الدین ایک تیر اندازی کے مقابلے میں شریک ہوئے۔ نشانہ باندھ کر تیر نشانے پر چھوڑا تو نشانہ خطا ہو گیا، خفت مٹانے کے لئے کہنے لگے ایسا نشانہ ہمارے دادا حضور لگاتے تھے، دوسرا نشانہ لگایا وہ بھی نشانے پر نہیں لگا تو بولے ایسا میرے والد لگاتے تھے، تیسرا نشانے پر جب لگا تو سینہ ٹھونک کر کہنے لگے ”یہ ہے میرا نشانہ“۔ یہ ہی حال حکمرانوں کا ہے جو تین تین سے زیادہ باریاں لگا چکے ہیں مگر تیر ہے کہ نشانے پر نہیں بیٹھ پا رہا۔ یعنی عوام کی خوشحالی ایک خواب بن چکی ہے جس کی وجہ سے سیاستدانوں اور فوج میں آنکھ مچولی ہو رہی ہے۔ ایک گھر سے میاں بیوی کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں، ایک دن پڑوسی نے پوچھا کہ آپ کے گھر سے اکثر ہسنے کی آوازیں آتی رہتی ہیں، آپ لوگ تو بڑی خوشحالی کی زندگی گزارتے ہیں۔ آپ کی جوڑی تو بہت مثالی ہے، اس کا کیا راز ہے آپ کیسے خوش رہتے ہیں اور ہنستے رہتے ہیں۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ جب بیگم برتن شوہر کے سر پر مارتی اور نشانہ خطا ہوتا ہے تو شوہر ہنستا ہے، نشانہ صحیح بیٹھتا ہے تو بیگم ہسنتی ہے۔ یہ ہی ہمارے عوام کی خوشی کا معیار ہے۔ یہ ہے ہمارے عوام کی خوشحالی کا راز۔ یوں دنیا جس کو خوشحالی سمجھتی ہے یا حکومتیں اپنی خوش حالی کے کارنامہ بیان کرتی ہے تو وہ سید محمد جعفری کے مصرع کی طرح ہیں۔
جس کو سمجھے تھے انناس وہ عورت نکلی
خوشحالی یعنی عوام کے لئے ایک سیراب کی مانند ہوچکی ہے اور حکمراں اپنی تجوریاں بھر کر دلاور فگار کے مشورے پر من و عن عمل پیرا ہیں۔ عوام کے لئے ملا نصیر الدین کے خیالی منصوبوں سے خوشحالی کے دروازے کھول رہے ہیں۔ عوام آلو اور خالو کے درمیان اپنی خوشیاں تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ یوں عوام کے پاس جب کچھ ہے، بے لوث قیادت اور خوشحالی کے سوا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں