امریکہ میں بیٹھ کر امریکہ کو ننگا کرنا کوئی معمولی کام نہیں اور یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کا اپنا دامن ہر طرح کی برائیوں سے پاک ہو، یہ کارنامہ بھی کسی اور کے حصے میں نہیں، عمران خان کے حصے میں ہی آیا ہے جسے پاکستانی میڈیا نے حسب روایت نظر انداز اور غیر ملکی میڈیا نے اپنے اخبارات اور چینلز کی زینت بنایا ہے۔ یہ وہ سچ ہے جسے نہ تو کسی پاکستانی وزیر اعظم کو کہنے کی ہمت تھی اور نہ ہی امریکا مائی باپ کو اس کی سننے کی عادت ہے۔ اگر کوئی پاکستانی وزیر اعظم پہلے ہی اس جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرچکا ہوتا تو دنیا کو پاکستان کو دہشت گرد کہنے کی ہمت نہ ہوتی۔ وزیر اعظم عمران خان نے امریکہ میں یہ بھی کہا کہ پہلے مودی کی پارٹی کا صرف انتخابی نعرہ پاکستان اور اسلام مخالفت پر تھا تاکہ وہ ہندو ووٹ کے ذریعے الیکشن جیت سکیں لیکن اب الیکشن کے بعد وہ عملی طور پر اپنے اس منشور پر عمل کررہا ہے۔ عمران خان کے یہ چونکا دینے والے بیانات اور اعلانات پوری دنیا کی توجہ اپنے جانب کئے ہوئے ہے وہ ممالک اور طاقتیں جو در پردہ امریکی پالیسیوں کی سخت مخالف ہیں۔ لیکن خوف کے مارے وہ کھل کر امریکہ کے خلاف کچھ کہہ نہیں سکتے وہ عمران خان کے ایک ایک جملے اور ایک ایک لفظ کو چومتے ہوئے اپنے میڈیا کی زینت بنا رہے ہیں۔ خود امریکی میڈیا عمران خان کی خبروں کو سب سے زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ اس لئے کہ اس میں سچائی، زمینی حقائق سے مطابقت اور جرات کے مظاہر صاف طور پر دکھائی دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ لفظ اور جملے کسی پہلے سے لکھے ہوئے پرچیوں کو پڑھنے کے نتیجے میں نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے نکل رہے ہوتے ہیں اسی وجہ سے امریکی صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ سابق امریکی صدور اور امریکہ نے پاکستان کے ساتھ بہت زیادہ زیادتی کی ہے انہوں نے کبھی بھی پاکستان پر اعتماد نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے شک بھری نظروں سے دیکھتے رہے لیکن میں اور میری حکومت ایسا نہیں کررہی ہے۔ میں پاکستان سے بڑے پیمانے پر تجارت کرنے کا خواہ ہوں۔
وزیر اعظم عمران خان کا غیر ملکی سربراہوں سے ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور وہ کشمیر کے معاملے پر دنیا کی حمایت حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک زبردست مقابلے کی سی پوزیشن پیدا ہو گئی ہے اور بظاہر عالمی دنیا دو حصوں میں بٹتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ایک گروپ مودی کی آﺅ بھگت میں لگا ہوا ہے اور دوسرا سچ اور زمینی حقائق کا باریک بینی سے مشاہدہ کررہا ہے۔ عالمی طاقتوں کی یہ کوشش ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان پہلے اور مودی ان کے بعد جنرل اسمبلی سے خطاب کرے تاکہ انہیں پاکستانی وزیر اعظم کے خطاب کے بعد اپنے خطاب میں ردوبدل کا موقع مل سکے لیکن اس کے باوجود پوری دنیا کو ہی عمران خان کے خطاب کا بے چینی سے انتظار ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر کیا کہنا چاہتے ہیں؟ اور وہ کیا حل پیش کرتے ہیں؟ اور جنرل اسمبلی ان کے خطاب کا کتنا اثر لیتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ جنرل اسمبلی کے اس 74 ویں سیشن کو ”کشمیر سیشن“ کہا جائے تو غط نہ ہوگا کیونکہ 139 ممبران اس سیشن میں جموں و کشمیر میں بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے۔ میری ایک بات سمجھ میںنہیں آرہی ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کوئی تیسری چوتھی بار کشمیر کے معاملے پر اپنے ثالثی ہونے کی پیشکش کرچکا ہے جسے پاکستان قبول اور بھارت مسلسل ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا آرہا ہے وہ اس کے برعکس جموں و کشمیر میں پچھلے ڈھائی ماہ سے کرفیو لگائے رکھا ہے جب کہ اندرون خانہ آر ایس ایس کے غنڈوں کے ذریعے کشمیر میں غنڈہ گردی اور اغواءو قتل کا بازار گرم کئے ہوئے ہے یہ بات طے ہے کہ بھارت اتنا بڑا قدم خود اپنے طور پر نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے پس پردہ حمایت کی وجہ سے ہی اٹھا رہا ہے۔ جس کا ادراک ان قوتوں کو بھی ہے جو دنیا میں امن چاہتی ہے اور ممکنہ ایٹمی جنگ سے بچنا چاہتی ہے اور وہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹرز کے ذریعے حل کئے جانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس لئے وہ طاقتیں اقوام متحدہ کے اس 74 ویں سیشن کو ایک فیصلہ کن سیشن خیال کرتی ہیں کہ یہ سیشن ایک ممکنہ ایٹمی جنگ کو ٹالنے کا باعث بنے گا جب کہ یہ اخبار قارئین کے ہاتھوں میں ہوگا اس وقت تک بہت کچھ واضح ہو چکا ہوگا اس وقت پاکستانی حکومت پورے انہماک کے ساتھ کشمیر کا مقدمہ عالمی فورم پر لڑ رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جہاں ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد کے نام پر نہ تو حکومت نے خود کوئی غلط قدم اٹھایا اور نہ ہی دوسروں کو اس کا موقع دیا جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی اپوزیشن پارٹیز اور ان کے حامی میڈیا کو پہنچا ورنہ سب کو یقین تھا کہ ملک پر آئے اس نازک ترین صورتحال میں حکومت کو دنیا کو مصنوعی پیغام دینے کے لئے ساری اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنے کے واسطے انہیں ان کے خلاف درج مقدمات میں ڈھیل دینا ہوگی۔ اسی طرح سے میڈیا کی جعلی حمایت لینے کے لئے ان پر اشتہارات کی بارش کرنا ہوگی اور وزیر اعظم عمران خان کو اپنے ہمراہ ایک دو درجن اینکرز پرسن اور صحافیوں کو امریکہ لے جانا پڑے گا۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ اور عمران خان نے اپنی سچائی اور دلیری پر ہی اکتفا کیا اور خود اپنی ٹیم کے ہمراہ جنرل اسمبلی پہنچے ہیں۔ عمران خان سے گزارش ہے کہ وہ پوری تندہی کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑیں۔ ان شاءاللہ جیت سچ اور حق کا ہی مقدر ہوتی ہے۔ رعونت اور ظالموں و جابروں کا نہیں۔
