نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 235

ادارے بمقابلہ پاکستان!

پاکستان کی سیاست پاکستان کی جمہوریت اور پاکستان کے ادارے ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں، ایسے لگ رہا ہے کہ ان سب کا نہ تو اس ملک جس کا نام پاکستان ہے، اس سے کوئی لینا دینا اور نہ ہی اس ملک میں بسنے والے 24 کروڑ عوام سے۔۔۔
ان کا طرز عمل سے تو یہ ہی معلوم ہوتا ہے جس کا میں نے ذکر کیا کہ کس طرح کی سیاست پاکستان میں کی جارہی ہے یا کس طرح کی جمہوریت پاکستان میں چلائی جارہی ہے کہ اس کے ثمرات پاکستانی عوام کی بجائے کسی اور کو مل رہے ہیں، اس سیاست اس جمہوریت یا پھر ان اداروں کے کارکردگی کا فائدہ نہ تو پاکستانی عوام کو مل رہا ہے اور نہ ہی ریاست پاکستان کو۔۔۔ بلکہ ان کا فائدہ ان ممالک کو براہ راست پہنچ رہا ہے جو بالواسطہ یا براہ راست طور پر پاکسان پر اس وقت حکمرانی کررہے ہیں، خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی عوام پچھلے چند سالوں میں اتنی باشعور ہو چکی ہے اور ان میں اتنی آگہی آچکی ہے کہ وہ اپنے اداروں کی چالبازیوں اور مکاریوں سے اچھی طرح سے واقف ہو چکی ہے اور اب انہیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ صرف اور صرف ادارے ہیں، ادارے ہی لوگوں کو زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بناتے ہیں، یہ سیاست اور جمہوریت تو وہ پوشاکیں ہیں جو اداروں کے ان مکروہ اور گناہ آلود سرگرمیوں کو ڈھانپنے کا کردار ادا کرتے ہیں، اب تو یہ بات بھی روز روشن کی طرح سے عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں جنگل کا قانون رائج ہے، یہاں انصاف بکتا ہے، قانون بکتا ہے، ووٹ بکتا ہے، اراکین اسمبلی بکتے ہیں، پوری کی پوری پارلیمنٹ بکتی ہے، صحافت بکتی ہے، ہر شے بکتی ہے، صرف خریدار چاہئے، یہاں پورے کے پورے ادارے تک اپنی بولیاں لگانے کو تیار رہتے ہیں، پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی پوری حکومت ہی ہر وقت خود کو فروخت کرنے کے لئے تیار رہتی ہے، لیکن اس کے باوجود جمہوریت کی راگ سب سے زیادہ پاکستان میں ہی الاپی جاتی ہے اور ایسا کرتے ہوئے نہ تو سیاستدانوں کو شرم آتی ہے اور نہ ہی ان کے سرپرستوں کو۔ اب تو یہ بات روز روشن کی طرح سے پاکستانی عوام پر عیاں ہو چکی ہے کہ یہاں ہر کوئی قومی خزانے کو لوٹنے والا ڈاکو ہے، ہر کوئی اسے مال غنیمت سمجھتے ہوئے اپنے قد اور وزن کے حساب سے اپنا حصہ انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے وصول کررہا ہے، غرض چور اور چوکیدار کے فرق کو ہی ختم کردیا گیا ہے۔ اس وجہ سے ہر کوئی روکنے بجائے آٹھ دس ہاتھوں سے اس کارخیر میں لگا ہوا ہے اور اسے اجتمعی لوٹ مار کا خمیازہ پوری قوم کو گناہ بے لذت کے طور پر ہو شربا مہنگائی کی صورت میں اٹھانا پڑ رہا ہے، یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں، بہت ہی پرانا ہے لیکن جب سے عمران خان وزیر اعظم بنے اور ان کی جانب سے قوم کو جو شعور دیا گیا اور جو آگاہی ملکی عوام کو ان کے ساتھ کئے جانے والے اس تباہ کن زیادتی سے متعلق دی گئی اس کے بعد چونکہ اداروں اور سیاستدانوں کے لوٹ مار کا گٹھ جوڑ سامنے آگیا اور وہ پوری طرح سے ننگے ہو گئے۔ عوام میں اپنے اداروں کی ساکھ خراب ہونے لگی، لوگوں میں ان کے خلاف نفرتیں بڑھنے لگی تو اس کے بعد ہی انہوں نے بجائے اپنا قبلہ درست کرنے کے اپنے لوٹ مار کی رفتار ہی بڑھا دی یعنی بھاگتے چور کی لنگوٹی ہاتھ آئے کے مصداق۔ وہ اس وقت کچھ اس طرح کی لوٹ مار میں لگے ہوئے ہیں جس کا زندہ ثبوت عوامی حمایت نہ ہونے کے باوجود موجودہ امپورٹڈ حکومت کو ان کا سہارا دینا ہے اور پنجاب میں قانونی و جمہوریت و اخلاقی طور پر حکومت کھونے کے باوجود حمزہ شہباز کی حکومت کو برقرار رکھنا ہے اور اس مقصد کے لئے خاص طور سے کسی کا وہاں ڈیرے جمانا ہے جس کے بارے میں پی ٹی آئی کی پنجاب کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد تفصیل سے دل کا غبار نکال چکی ہے جو اداروں کے لئے نوشتہ دیوار ہے اسے پڑھنے اور اپنا قبلہ درست کرنے کی انہیں ضرورت ہے۔ اگر وہ واقعی اس ملک کی سلامتی اس کی بقاءاور خود جمہوریت چاہتے ہیں، ورنہ تو یہ ملک اسی طرح سے تباہی کی جانب بڑھتاچلا جائے گا۔
اب وہ وقت آپہنچا ہے کہ فصل کو اس باڑ سے بچایا جائے جو چوروں سے فصل کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے لگایا تھا لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ باڑ تو خود فصل کو کھائے جارہا ہے اس کے لئے ملکی عوام کا متحد ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت ملک کو بچانے کے لئے عمران خان کے حقیقی آزادی کے جنگ اور تحریک میں شامل ہونا پڑے گا اور اس کے لئے دل سے اس طرح کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے خوف کو نکالنا ہوگا اس لئے کہ سب سے پہلے ملک ہے اور اس کے بعد ادارے اور ان کی تکریم۔ اداروں کی تکریم کے لئے ملک کو داﺅ پر نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے ملک کے سارے محب الوطنوں کو غداروں کے خلاف سر پر کفن رکھ کر باہر نکلنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں