کچھ روز قبل اسلام آباد پولیس کے کاﺅنٹر ٹیرر ازم کے اہلکاروں نے صبح دو بجے کے قریب سیکٹر جی 13 کے رہائشی اسامہ ندیم ستی جس کی عمر اکیس سال کے لگ بھگ تھی کو بڑے بے رحمانہ انداز سے درجن سے زیادہ گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ چھ گولیاں مقتول کو لگیں اور باقی اس کی گاڑی پر پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق گولیاں قریب سے ماری گئیں۔ واقعات کے مطابق وقوع کے روز مقتول رات دو بجے اپنے ایک دوست کو گھر چھوڑ کر واپس اپنے گھر جارہا تھا کہ پولیس ناکے پر اسے رکنے کا اشارہ کیا گیا۔ جس کو نظر انداز کرتے ہوئے اس نے گاڑی نہیں روکی جس پر پولیس کے اہلکاروں نے پیچھا کرکے گاڑی روکی اور اس بات کا گمان کرتے ہوئے کہ اس میں سے فائرنگ نہ کر دی جائے اپنے دفاع میں فائرنگ شروع کردی۔ جس کے نتیجے میں یہ اندوہناک واقع پیش آیا۔ رات دیر گئے سفر کرنے والے لوگوں کو اکثر پولیس چیک پوسٹ پر روک لیا جاتا ہے کیونکہ بیشتر جرائم پیشہ افراد راتوں کو ہی وارداتیں کرتے ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پولیس کے روکنے پر اسامہ گاڑی روکتا اور ان کو اپنا قانونی کام کرنے دیتا۔ پاکستان کے لاءاینڈ آرڈر کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ اندرونی اور بیرونی دشمن یلغار کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے تمام اداروں کی بے قیری ہمارے سیاست دانوں اور پاور فل لوگوں کا مشغلہ ہے۔ اداروں کی سیاست میں اس قدر ملوث کردیا گیا ہے کہ با اثر افراد کے کہنے پر پوسٹنگ ٹرانسفرز کی جاتی ہیں۔ میرٹ کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالت زار بھی بڑی ابتر ہے۔ پولیس گردی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ کئی دھائیوں سے جاری اس معاشرے کی زبوں حالی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
میر مرتضیٰ بھٹو کی پولیس کے ہاتھوں دن دھاڑے گھر کے سامنے ہلاکت ہوئی، گورنر سلمان تاثیر کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت، منہاج القرآن کے سامنے 14 لوگوں کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت، واقعہ ساہیوال ہو یا پھر وطن عزیز میں ہونے والے ان گنت پولیس دہشت گردی کے واقعات معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہر دل دھلا دینے والے واقعے پر حکومتی وزراءکی طرف سے اظہار افسوس کیا جاتا ہے اور جے آئی ٹی بنا دی جاتی ہے۔ ورثاءکو چند لاکھ روپے دے کر منہ بند کردیا جاتا ہے۔ میڈیا کچھ روز شور مچاتا ہے اور پھر اس سے بڑھ کر سنگین واقعات اور خبریں منظر عام پر آجاتی ہیں اور پچھلا واقعہ پس پشت چلا جاتا ہے۔ یہ روایتی بے حسی اور طریقہ کار ہے۔
اسامہ کے قتل پر بھی جے آئی ٹی بنا دی گئی ہے، ملزم پولیس اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، حکومتی وزراءنے والدین کے ساتھ اظہار افسوس کیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ انصاف مہیا کیا جائے گا۔ یہ دلاسہ اور امید دھائیوں سے اہل پاکستان کو دلائی جارہی ہے۔ گہری کالی کھائی میں یہ خواب ایک ہلکی روشنی کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ جس کی روشنی وہیں کی وہیں ہے، اس میں کچھ اضافہ نہیں ہو سکا۔
پولیس گردی نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ پوری دنیا میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، دنیا کے مہذب ملکوں میں بھی ایسے درجنوں واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں، جس میں پولیس نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے معصوم لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ امریکہ، کینیڈا، یورپ، افریقہ، بھارت، ہانگ کانگ، چین، روس، سعودی عرب، یو اے ای سمیت دنیا کے تمام ممالک میں پولیس کے ہاتھوں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شمالی امریکہ میں مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ اگر آپ گاڑی چلا رہے ہیں اور پولیس رکنے کا اشارہ کرتی ہے، آپ گاڑی نہیں روکتے تو آپ کو بڑے سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ گاڑی رکنے پر آپ گاڑی سے باہر نہیں آسکتے حتیٰ کہ گاڑی کے اندر بھی کسی قسم کی مشکوک حرکت نہیں کر سکتے کہ جس سے پولیس کو یہ لگے کہ آپ کوئی ہتھیار نکالنے والے ہیں۔ جب تک پولیس کا اہلکار آپ کے پاس نہ آئے، آپ خاموشی سے بلا چوں چراں اپنی سیٹ پر بیٹھے رہیں اور جب وہ آپ سے گاڑی کے کاغذات مانگے یا کوئی اور سوال کرے تو پھر آپ اس کے مطابق جواب دیں وگرنہ ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں گاڑی سے زبردستی ڈرائیور کو نکال لیا جاتا ہے، زدوکوب کیا جاتا ہے اور پھر جارج فلائیڈ جیسے واقعات ہوتے ہیں جس سے تحریکیں جنم لیتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے بڑے تمتراک سے پاکستان میں پولیس ریفارمز کا وعدہ کیا تھا کہ ہماری حخومت پاکستان میں ہونے والے غیر انسانی اور غیر قانونی کاموں کو روکنے کے لئے بند باندھے گی اور اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے گی۔ خاص طور پر جو بڑی اصلاحات کرنی تھیں ان میں سرفہرست تھانہ اور پٹوار کلچر تبدیل کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ہے۔ موجودہ حکومت کے دور میں پولیس کے ہاتھوں بے گناہ افراد کی ہلاکت کے کئی ایک واقعات ہو چکے ہیں مگر اس کے ملزمان قانون کی مختلف موشگافیوں کا سہارا لے کر بچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے قوانین اس قدر بوسیدہ اور لاچار ہیں کہ اب اس کو فوری طور پر بدلنے کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کے کردار کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ وکلاءمیں ایسے گروہ موجود ہیں جو انصاف نہیں ہونے دیتے، وہ جرائم پیشہ افراد کی معاونت کرتے ہیں اور عدالتوں سے زبردستی اپنے حق میں فیصلے کروالیتے ہیں۔ ججوں کو یرغمال بنا لینا معمول کی بات ہے، عدالتوں کے تقدس کو پامال کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔
پولیس سمیت باقی ادارہ جاتی ریفارمرز کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے اس میں اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے ساتھ مل کر نئی قانون سازی کرنا ہو گی وگرنہ یہی کچھ ہوتا رہے گا جو اسامہ ندیم ستی کے ساتھ ہوا ہے۔ ہم پولیس کی اس دہشت گردانہ کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہیں اور حکومت سے مقتول کی فیملی کو انصاف مہیا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
359