صد افسوس! ایک مرتبہ پھر وطن عزیز کے انتہائی پڑھے لکھے طبقے یعنی وکلاءنے آج اسلام آباد ہائی کورٹ کے تقدس کو رونڈ ڈالا۔ وکلاءکی جج صاحبان کے ساتھ ناروا سلوک اور ہاتھا پائی کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ ابھی پی آئی سی لاہور کا واقعہ ذہنوں میں زندہ تھا کہ پھر وفاقی دارالحکومت کے وکلاءنے بدمعاشی اور وکلاءگردی کرتے ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے چیمبر میں تور پھوڑ کی اور اطلاعات کے مطابق ان سے وکلاءنے بدتمیزی بھی کی۔ بعض میڈیا رپورٹ کے مطابق ان کو دھکے بھی مارے گئے۔
واقعات کے مطابق آج علی الصبح کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے پولیس کے ہمراہ ہائی کورٹ کے اطراف میں وکلاءکے غیر قانونی دفاتر کو گرادیا۔ اس کی شکایت سیشن جج اسلام آباد نے ضلعی انتظامیہ کو کر رکھی تھی کہ وکلاءنے سرکاری زمینوں پر ااپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں اور یہ دن بدن ان کی تعداد بڑھتی جارہی تھی جس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچ رہا تھا حتیٰ کہ ججوں کی کورش تک رسائی ممکن نہ رہی تھی۔ سیشن جج کی تحریری شکایت پر ان وکلاءکو بارہا تحریری نوٹسز بھی دیئے گئے مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ وکلاءاپنے آپ کو ہر قانون سے بالاتر سمجھتے ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں ایسا بوسیدہ نظام پروان چڑھ چکا ہے کہ اس کی قید سے نکلنا انتہائی مشکل ہے۔
وکلاءنے بسا اوقات کچہریوں میں پولیس پر بھی تشدد کیا ہے اور سائلین کو بھی زدوکوب کرنے کے واقعات عام ہیں حتیٰ کہ اگر کوئی شخص ان کو گھر کرائے پر دے دے تو اس کو ساری عمر خالی نہیں کرایا جاسکتا۔
زمینوں پر انہوں نے قبضے کر رکھے ہیں کسی بھی پراپرٹی پر نوٹس لگا دیتے ہیں کہ اس کا مقدمہ زیر سماعت ہے لہذا کوئی اس پلاٹ کا سودا نہ کرے۔ شریف لوگ ان سےاپنا دامن بچاتے پھرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کم ہوتا جارہا ہے اور تشدد کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں بہت بڑی اکثریت عدم برداشت کے مرض کا شکا رہے اس کے مختلف نفسیاتی پہلو ہو سکتے ہیں، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، صحت اور ٹریفک کے مسائل اس کے علاوہ دوستوں اور خاندانوں میں جائیدادوں کے جھگڑے، غیرت کے نام پر قتل و غارت، بھتہ وصولی کرنے کے لئے لوگوں کو نشانہ بنانا اس گھناﺅنے کھیل میں نہ صرف وکلاءشریک ہیں بلکہ معاشرے کے دیگر افراد بھی نمایا ںہیں۔
وطن عزیز میں بے شمار مسائل ہیں ان کا تعلق بڑی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے ہمارے ہاں وسئال کم ہیں اور مسائل بے شمار ہیں بچوں کو ابھی تعلیم نہیں مل رہی اور نہ ہی اچھی صحت کی سہولیات میسر ہیں اسی لئے ہمارے ہاں انسانوں کی جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے، آئے دن قتل و غارت اور حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں، دہشت گردی کے واقعات عام ہیں، اسٹریٹ کرائمز عروج پر ہیں، چھینا جھپٹی کا دور دورہ ہے، معاشرے کی یہ زبوں حالی کوئی ایک دو سال کی بات نہیں ہے یہ دہائیوں پر مشتمل کہانی ہے۔
اس کے برعکس اگر دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک میں یا پھر عرب ممالک میں لاقانونیت کی شرح بہت کم ہے۔ کیوں کہ وہاں قوانین انتہائی سخت ہیں اور پھر ادارے بہت با اختیار اور مضبوط ہیں، کسی بھی لاقانونیت کے نتیجے میں قانون فوراً حرکت میں آتا ہے اور قانون سب کے لئے برابر ہے۔
انصاف بڑی تیزی سے ہوتا ہے، مجرمان کو قدر واقعی سزا ملتی ہے جس سے وہ دوبارہ جرم کرنے سے پہلے کائی بار سوچتا ہے اور دوسرے لوگ اس سے عبرت پکڑتے ہیں۔
ہمارے ہاں پورے اداراتی اور معاشرتی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ہر شعبے میں بڑے طاقتور مافیاز بیٹھے ہیں جن کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہے۔ حکومت کے لئے بھی بڑا چیلنج ہے۔ ابھی پچھلے دنوں لاہور، سیالکوٹ اور کراچی میں ناجائز تجاوزات اور قبضہ گروپوں کے خلاف کارروائی کی گئی جس کا بہت ری ایکشن آیا، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین قبضہ گروپوں کے ساتھ کھڑے ہو گئے، سیاسی اکابرین اور بیورو کریسی ان کی پشت پناہی کرتی ہے اور پھر یہ لوگ ان کے تمام اخراجات اٹھاتے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سمیت تمام ماتحت عدالتیں بھی غیر معینہ مدت کے لئے بند کردی ہیں۔ اور جس ملک کی عدالتیں بند ہو جائیں اس ملک کے لئے آئندہ آنے والے دنوں میں بڑے سنگین مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، یہ لمحہ فکریہ ہے اور بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر حکومت اور عدلیہ کو مل کر ایکشن لینا ہوگا۔ پاکستان اس طرح کے مسائل کا متحمل نہیں ہو سکتا ہمیں سنجیدہ ہو کر مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا۔
