عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 502

اسٹیٹ بینک سازش کی زد میں۔۔۔!

پاکستان پر معاشی بحران مسلط کردیا گیا ہے۔ ایک سازش اور منصوبے کے تحت پاکستان سے ڈالروں کو غائب کرایا جارہا ہے تانکہ اس کی قیمت اپنے مرضی سے بڑھا کر پاکستان پر موجود قرضوں کو چٹکی بجا کر بڑھایا جا سکے اس تمام کھیل میں خود پاکستان کے وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کا کردار بھی سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے جو ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کرکے قومی جرم کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے حوصلہ افزائی کا باعث بن رہا ہے۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں کا حجم 105 ارب 84 کروڑ ڈالر ہو چکا ہے اور یہ قرضہ جی ڈی پی کا 75 فیصد ہو گیا ہے یعنی پاکستان کی موجودہ ساری آمدنی کا 75 فیصد حصہ صرف قرضوں کے سود کی مد میں ہر سال جاتا ہے اور باقی 25 فیصد سے پورے ملک کو چلانا پڑ رہا ہے جو ایک انتہائی ناگہانی صورتحال ہے اس طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنا کسی بھی ایسے ملک کے لئے بہت ہی مشکل ہو جاتا ہے جہاں یکجہتی نہ ہو، جہاں سیاسی استحکام نہ ہو، مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے صرف 6 ارب ڈالر کا قرضہ لینے کے لئے اس قدر منتیں اور ترلے کیے کہ ان کی فرمائش پر وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کی گورنری جیسا اہم ترین منصب بھی ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا جب کہ پاکستان نے سال رواں کے آخر تک سود کی مد میں 5 ارب 72 کروڑ ڈالر واپس کرنا ہے یہ اسٹیٹ بینک کا ہی کرشمہ ہے کہ ڈالر نئے گورنر اسٹیٹ بینک کے آنے سے چند دنوں میں 12 سے 15 روپے مہنگا ہو گیا ہے یا پھر کردیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی روپیہ دنیا کا سب سے ہلکا ترین یعنی بے وزنی روپیہ بن گیا ہے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں ڈالر 151 روپے کا ہو گیا ہے جب کہ افغانستان جیسے تباہ حال ملک میں ڈالر 79 افغانی کا ہے خود بھارت میں ایک ڈالر 70 روپے کا ہے بنگلہ دیش میں ایک ڈالر 84 ٹکے کا ہے، نیپال میں ایک ڈالر 112 بھوٹان میں ایک ڈالر 69، تھائی لینڈ میں 32 بھات کا اور ساﺅتھ افریقہ میں ایک ڈالر 14.45 رینڈ کا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی روپے کی یہ بے قدری یہ بے توقیری ایک سازش اور منصوبہ بندی کے تحت کی گئی ہے اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے اور نہ ہی اسے رکنے دیا جائے گا اس لئے کہ اس معاشی بحران کی پشت پر وہ تمام طاقتیں کھڑی ہیں جنہیں پاکستانی نیوکلیئر ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ پاکستان کو ایک دیوالیہ ریاست کی جانب دھکیل رہے ہیں تاکہ پاکستان کو اسی کے ایٹمی جوہر سے محروم کرنے میں انہیں آسانی ہو۔ اس ساری صورتحال میں حکومت پاکستان اور اس کے حساس اداروں کا کردار مایوس کن ہے۔ جب دشمنوں کی ساری چالیں ان پر بے نقاب ہو چکی ہیں تو پھر حکومت اور اس کی خفیہ ایجنسیاں کیا کررہی ہیں؟ وہ ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے ملک دشمن منی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتی؟ کیوں نہیں ان کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرتے ہوئے ان کی تجوریوں سے ذخیرہ کردہ لاکھوں ڈالرز برآمد کرتی؟ ملکی ایجنسیاں آج یہ کام کردے اور حکومت ان منی ایکسچینج کمپنیوں پر پابندی لگا کر ڈالروں کی خرید و فروخت کا کام ملکی بینکوں اور پوسٹ آفس کے حوالے کردے اور انہیں پابند کیا جائے کہ وہ صرف پاسپورٹ کو دیکھ کر ٹریول کرنے والوں پر ہی ایک محدود مقدار تک ڈالر فروخت کرے۔ پھر دیکھئے کس طرح سے ڈالر اپنے اصل قیمت پر آتا ہے یہ کام نہ تو عوام کے کرنے کا ہے اور نہ ہی اپوزیشن کا۔ یہ کام حکومت وقت کے کرنے کا ہے اور اگر حکومت اس طرح سے نہیں کرتی تو پھر خود حکومت بھی سوالیہ نشان بن جائے گی اور اس کے ساتھ پیمرا کہاں مر گیا ہے؟ وہ میڈیا کو اس بارے میں کنٹرول کیوں نہیں کرتا؟ وہ میڈیا پر ڈالروں کی قیمتوں کے حوالے سے خبریں چلانے پر پابندی کیوں نہیں لگاتا؟ اس طرح کی خبروں سے عوام میں بے چینی پھیلتی ہے اور ڈالروں کے ذخیرہ اندوزوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف قمر باجوہ کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں ہنگامی طور پر اقدامات کریں اور ڈالروں کی ذخیرہ اندوزی کرنے والوں سے بے رحمی سے نمٹا جائے اس لئے کہ یہ وقت ڈالروں کو سینے سے لگانے کا نہیں بلکہ انہیں قدموں کی ٹھوکر بنانے کا ہے اس سے شدید ترین نفرت کرنے کا ہے جو ان کے روپے کو روز بروز سکیڑ رہا ہے۔ حکومت کو بیرون ملک سے منگوائی جانے والی غیر ضروری الیکٹرونکس آئٹم پر بھی پابندی لگانی چاہئے اور خود ملکی عوام کو غیر ملکی مصنوعات اور کوکا کولا کا بائیکاٹ کرنا چاہئے تانکہ ملکی سرمایہ ڈالروں کی صورت میں ملک سے باہر نہ جائے جب کہ ملکی اپوزیشن پارٹیوں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دینے کی پالیسی اپنائیں، یہ نقصان موجودہ حکومت یا ان کی پارتی کا نہیں بلکہ ریاست پاکستان کا ہے اس لئے اپنے احتجاج سے ملک دشمنوں کو فائدہ پہنچا کر ملک کو مزید کمزور کرنے سے گریز کریں اس لئے کہ اپوزیشن کے احتجاج سے ملک کو ہی نقصان ہوگا جب کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ پر چیک اینڈ بیلنس رکھے۔ اسٹیٹ بینک کے شرح سود میں 1.5 فیصد اضافہ ملکی انڈسٹری کو تباہ کرنے کے مترادف ہے اور اس سے ملک میں بے روزگاری بڑھے گی جو کسی بھی ملک کے لئے بہتر نہیں ہے۔ عمران خان کو چاہئے کہ اسٹیٹ بینک کو خود ریاست کے خلاف کئے جانے والے احکامات سے روکے، وہ ایک ریاستی ادارہ ہے، آئی ایم ایف کی کوئی برانچ نہیں۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں