مستقبل کا پاکستان؟ 267

اسٹیٹ بینک کی خودمختاری یا پاکستان کی غلامی

گورنر اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کی خواہش آرزو یا پھر ان کی اس کوشش نے پاکستانی سیاست میں ایک ہل چل پیدا کردی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کی سلامتی اور خود اس کی اپنی خودمختاری بہت ہی بری طرح سے ہل چکی ہے اور لرز رہی ہے۔ یہ جو بھی کچھ ہو رہا ہے یا پھر ہونے جارہا ہے بقول مبصرین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق بہت ہی خطرناک ہو رہا ہے اور اس کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر کڑیاں ترکی کے 2023ءکے ممکنہ سو سالہ آزادی سے خلاصی پانے کے معاملے سے جا کر ملتی ہیں کیونکہ پاکستان ہی ایک ایسا واحد اسلامی ملک ہے جو عمران خان کی قیادت میں ترکی کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دے رہا ہے اور یہ ہی وہ عمل ہے جو پاکستان اور اسلام دشمن قوتوں کو بہت ہی بُری طرح سے کھٹک رہا ہے۔ پاکستان میں جب ارطغرل ڈرامہ چل رہا تھا اور پاکستانی عوام کا جوش و جذبہ اس ڈرامہ کو دیکھنے میں تیزی سے بڑ رہا تھا تو مخالفین میں اس سے صف ماتم بچھا ہوا تھا اور اندر ہی اندر سے سازشوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل رہا تھا جو اب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری کی صورت میں پھٹ پڑا ہے اس کی قانون سازی کسی حد تک ہو گئی ہے اب صرف پارلیمنٹ سے اس کی توثیق ہونا باقی ہے۔ ایک انتہائی خطرناک کھیل بالکل وہی کھیل جو میر صادق کے ذریعے ٹیپو سلطان کے خلاف شروع کیا گیا تھا وہی کھیل اب ریاست پاکستان کے خلاف شروع کردیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کا۔۔۔
قائد اعظم کے اصولوں کے برخلاف یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ قائد اعظم اسٹیٹ بینک کو حکومت پاکستان کے ماتحتی میں یعنی زیر نگرانی میں رکھنے کی خواہش مند تھے۔ وہ اسٹیٹ بینک کے خودمختاری کے خلاف تھے لیکن اب ریاست میں ریاست کے مصداق اسٹیٹ بینک خودمختار ہونے جارہی ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک ڈپٹی گورنر اور ان کا پورا عملہ کسی کو جواب دہ نہیں ہو گا نہ تو پارلیمنٹ کو، نہ ہی نیب، اور نہ ہی ایف آئی اے کو۔۔۔ اس طرح سے گورنر اسٹیٹ بینک تمام سرکاری اداروں کے بجٹ بنانے، انہیں کم زیادہ کرنے کا مجاز ہو گا ان سے ایسا کرنے کے بارے میں کسی کو کچھ پوچھنے کا اختیار نہ ہو گا پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ جواب دہ کس کو ہوگا؟ حکومت پاکستان کو یا پھر آئی ایم ایف یا پھر ورلڈ بینک کو۔۔۔؟ اسٹیٹ بینک کی خودمختاری نے پاکستان کے سلامتی پر ایک دو نہیں بہت سارے سوالات کھڑے کردیئے ہیں کہ آخر کیا ہونے جارہا ہے، انہیں کوئی روکنے یا ٹوکنے والا ہے کہ نہیں۔ جو یہ وائس رائے کی طرح سے آکر فیصلے کررہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر باقر رضا کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ پہلے رومانیہ اور اس کے بعد مصر میں آئی ایم ایف کی جانب سے گئے اور نہ جانے وہاں انہوں نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے کیا کر ڈالا کہ ان کی پھلتی پھولتی معیشت تباہ و برباد ہو کر بنجر بن گئی یعنی وہاں کی مجموعی پیداواری صلاحیت مثبت سے منفی میں چلی گئی یہ ہی حال پاکستان کی معیشت یعنی مجموعی پیداواری صلاحیت مثبت سے منفی ہو گئی کیونکہ ان کے تمام تر فیصلے ان ملکوں سے زیادہ آئی ایم ایف کو فائدہ پہنچانے کے لئے کئے جاتے ہیں وہ ان ممالک میں آئی ایم ایف کے بزنس ایگزیکٹو کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور ان ملکوں کو ایک لمبے عرصے تک آئی ایم ایف کا کسٹمر بناتے ہیں یعنی ان کی حالت اس طرح سے کردیتے ہیں کہ آئی ایم ایف ان کے لئے لازم و ملزوم بن جاتا ہے ایک طرح سے وہ آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر آجاتے ہیں اور پھر وہاں کی ساری اقتصادی اور دوسری دفاعی اور خارجی پالیسیاں تک آئی ایم ایف کے باقر رضا جیسے لوگ ہی مل کر بناتے ہیں یہ ایک طرح سے دوسرے ملکوں کو اپنا غلام بنانے کا آسان طریقہ ہے اس سارے فعل کی شروعات ہی اس ملک کے سرکاری بینک پر قبضہ کرنے سے کردی جاتی ہے جس طرح سے باق رضا اس وقت اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ایک خودمختار ادارہ بنانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں یعنی اسٹیٹ بینک کو خودمختار ادارہ بنا کر ملک کے سلامتی کے اداروں کی کسی حد تک کنٹرول حاصل کرنا ہے یہ سارا گورکھ دھندہ ہی فی الحال سیکورٹی فورسز کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے کیا جارہا ہے تاکہ پاکستان ترکی کے مزید قریب نہ جائے اور اس کا اتحادی نہ بنے۔ یہ ایک لمبی ترین سازش ہے جس کے بارے میں فی الحال کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن سیاسی مبصرین کا یہ ہی کہنا ہے جس کا تذکرہ بالائی سطور میں کر چکا ہوں ملک کی اپوزیشن پارٹیوں کا یہ کہنا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان کی حکومت بانی پاکستان قائد اعظم کے اصولوں کے خلاف کی جانے والی قانون سازی ہونے دے گی؟ یا پھر اس کی مخالفت کرے گی یہ تو آنے والا وقت بی بتلائے گا۔ فی الحال تو عمران خان نے آئی ایم ایف کے منظور نظر وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو فارغ کردیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں