امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے کارنامے 284

اس حمام میں سب ننگے ہیں

پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران کرپشن کے خلاف کئے جانے والے سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اس موجودہ سیاسی بلیک میلنگ کا مقصد حکومت کے ذریعے نیب پر دباﺅ ڈالنا ہے کہ وہ اس طرح سے آزادانہ طور پر سیاستدانوں کے خلاف کارروائی کرنے سے باز آجائے۔ سلیم مانڈوی والا کا گزشتہ روز کا بیان مضحکہ خیز ہے کہ چیئرمین نیب کو کہا تھا کہ وہ کسی بھی سینیٹر کے خلاف ممکنہ کارروائی کرنے سے قبل سینیٹ سے پیشگی اجازت لے، یہ ایک غلط اور فضول قسم کا مطالبہ ہے اور اس طرح سے کرنے کا مقصد سوائے نیب کو پریشر میں لانے کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ جس کی کوئی نظیر مغربی اور مہذب جمہوری معاشروں میں نہیں ملتی۔ نیب ایک آئینی ادارہ ہے، سلیم مانڈی والا اگر نیب پر کسی بھی طرح کی قدغن لگانے کے خواہش مند ہے تو ان کے پاس اس کا بہترین فورم سینیٹ موجود ہے۔ وہاں وہ قانون سازی کریں کہ نیب کسی بھی اراکین اسمبلی کو براہ راست گرفتار کرنے کا مجاز نہیں ہو گا۔ اس قانون کے بعد بھی اگر نیب اس طرح کی کوئی کارروائی کرتی ہے تو اس صورت میں سلیم مانڈوی والا یا دوسرے سینیٹر نیب کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے مطالبے میں حق بجانب ہوں گے مگر اب اس وقت ان کا یہ مطالبہ سوائے مخالفت برائے مخالفت یا پھر چور کی داڑھی میں تنکے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھے گا۔
اس وقت پی ڈی ایم جو اپوزیشن کی مشترکہ اتحاد سے بنی ہے ان کا مطالبہ یا ان کی پوری کی پوری تحریک بھی محض کرپشن کو تحفظ دینے کے گرد گھوم رہی ہے جس کا بھانڈا تو خود مولانا فضل الرحمن کی جماعت سے نکالے جانے والے ان کے بہت ہی وفادار ساتھیوں مولانا شیرانی، حافظ حسین احمد نے پھوڑا، انہوں نے تو واشگاف طور پر یہ کہہ دیا کہ اپوزیشن کی یہ پارٹیاں قوم کے لئے نہیں نکلی ہیں بلکہ یہ پارٹیاں نیب کے لئے نکلی ہیں یہ سب کے سب نیب کے ہاتھوں پریشان ہیں سب کے دکھ ایک جیسے ہیں سب کے سب قومی خزانہ لوٹنے والوں میں شامل ہیں اور اپنے اپنے مال کو بچانے کے لئے گھروں سے نکلے ہیں ان میں اور عام لٹیروں، ڈاکوﺅں میں کوئی فرق نہیں بلکہ یہ تو ان ڈاکوﺅں سے بھی بدتر ہیں اس لئے کہ کوئی ایک ڈاکو تو اپنی واردات سے کوئی ایک گھر برباد کرتا ہے مگر یہ سیاسی ڈاکو تو اپنی وارداتوں سے پورے پورے ملک کو اور پوری قوم کو ہی ویران و برباد کردیتے ہیں۔ اس لئے یہ ان روایتی ڈاکوﺅں اور لٹیروں سے زیادہ بدتر ہیں اس لئے کہ یہ جمہوریت کا سہارہ لے کر اپنی وارداتیں کرتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ نیب میں بُرے لوگ ہیں تو ان کو لگایا کس نے؟ نیب قانون درست نہیں تو اس کو بنایا کس نے؟ بابر اعوان کا یہ کہنا ہر لحاظ سے درست ہے، چیئرمین نیب کی تقرری اٹھارویں ترمیم کے بعد اب اپوزیشن اور قائد حزب اختلاف کی رضا مندی سے عمل میں لائی جاتی ہے، موجودہ چیئرمین کا انتخاب بھی اسی فارمولے کے تحت ہوا
تھا لیکن اب موجودہ چیئرمین جو جسٹس رہ چکے ہیں وہ اگر انصاف اور دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے سیاسی وابستگیوں کی پرواہ کئے بغیر انصاف و قانون کے تحت اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں جو ان پاکستانی سیاستدانوں کو بالکل بھی پسند نہیں آرہا جو یا تو خود نیب کی ان کارروائیوں کی زد میں آرہے ہیں یا پھر ان کے عزیز و اقارب نیب کی کارروائیوں سے متاثر ہو رہے ہیں اسی وجہ سے سب کی مل کر آوازیں نکل رہی ہیں۔ کوئی تو نیب کے خلاف سیاسی انداز میں بیان بازیاں کررہا ہے اور کوئی عمران خان کی حکومت کو ہی گرانے اور اسے ہٹانے کی باتیں کررہا ہے لیکن سب کا مرض یا بیماری نیب ہی ہے اور کوئی بھی نیب کی ان کارروائیوں سے خوش نہیں اس لئے کہ نیب کی یہ کارروائیاں اسی طرح سے بلا روک ٹوک کے چلتی رہی تو پھر کوئی ایک بھی سیاستدان اور کوئی ایک بھی بیوروکریٹ نہیں بچے گا۔ اس لئے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، ہر کسی نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک بھی دودھ کا
دھلا نہیں، اس لئے اس وقت پی ڈی ایم کا بننا ایک طرح سے بقاءکی جنگ کے مترادف ہے۔
ہمارے ہاں کے سیاستدان اس وقت اپنی بقاءکی جنگ لڑ رہے ہیں اس وقت انہیں نہ تو قوم کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی ملک کی۔۔۔ اگر پرواہ ہے تو صرف اور صرف اپنی دولت کی جو انہوں نے اپنے مفاد پرستی کی سیاست کی وجہ سے جائز و ناجائز طریقے سے جمع کر رکھی ہے۔ اب جب اس پر نیب نے کارروائی کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے تو ان حرام خوروں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ اس لئے کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی وہ اپنے ہی بنائے ہوئے قانون کے شکنجے میں آئیں گے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان کی توقعات کے بالکل برعکس ہو رہا ہے ان کی عمر بھر کی سیاست اور اس سیاست کے نتیجے میں جمع کردہ حرام کی کمائی سب کے سب داﺅ پر لگی ہوئی ہے۔ اس لئے سب مل کر اس وقت حکومت اور اس کے پس پردہ کام کرنے والی قوتوں کو بلیک میل کررہے ہیں جن میں بدقسمتی سے میڈیا کا وہ حرام خور طبقہ جو ان سیاستدانوں کے کالے کرتوتوں میں برابر کا شریک رہا ہے وہ گروپ اس وقت ان حرام خور سیاستدانوں کے سہولت کار کا کردار ادا کررہا ہے۔
عمران خان اور ملکی سلامتی کے اداروں کے سربراہوں کو چاہئے کہ وہ ہر حال میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، قانون بنانے والے اور قانون نافذ کرنے والوں پر ہر قانون کا اطلاق ترجیحی بنیادوں پر کیا جانا چاہئے۔ یہ ہی انصاف اور قانون اور ایک بدلتے ہوئے پاکستان کا تقاضا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں