نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 189

افغانستان میں اسرائیل کیلئے دروازے بند!

طالبات حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے عالمی دنیا پر یہ باور کرلیا ہے کہ وہ سوائے اسرائیل کے دنیا کے ہر ملک کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں جس میں ان کا سب سے متنازعہ پڑوسی ملک ہندوستان بھی شامل ہے جب کہ طالبان ترجمان نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ ان کی حکومت امریکہ سے اچھے تعلقات قائم رکھنے کی آرزومند ہے۔ یعنی ایک ایسے ملک سے وہ اچھے تعلقات رکھنے کے لئے پرامید ہیں جو ان کے ملک افغانستان کو کھنڈر بنانے یعنی ہزاروں لوگوں کی اجتماعی قبر بنانے کی ذمہ وار ہے لیکن طالبان حکمت اس کے باوجود امریکہ سے اچھے تعلقات رکھنے کے لئے کوشاں ہے ان کوششوں کے باوجود کابل میں واقع امریکہ کے اس سی آئی اے سینٹر پر بھی طالبان نے قبضہ کرلیا ہے جہاں کچھ عرصہ قبل تک طالبان مجاہدین کو پکڑ پکڑ کر لایا جاتا تھا اور ان پر انسانیت سوز مظالم ڈھا کر اپنی تسکین کی جاتی تھی اور اپنی نام نہاد بہادری کا جشن منایا جاتا تھا اس امریکی سی آئیاے سینٹر میں وحشیوں کے ہاتھوں بہت سارے طالبان ہیروز کی شہادتیں بھی ہو چکی ہیں اب اس سی آئی اے سینٹر کو طالبان حکومت میوزیم بنانے کے بارے میں غور کررہی ہے جب کہ تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ اس سی آئی اے سینٹر کو اب طالبان حکومت مخالف غیر ملکی ایجنٹوں کے تفتیشی مرکز کے طور پر استعمال کیا جائے لیکن اس وقت افغانستان میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب کا سب غیر متوقع ہے اور سمجھ سے باہر ہے کہ کس طرح سے طالبان نے دنیا کے سب سے بڑے سپرپاور امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے یعنی افغانستان سے بھاگنے پر مجبور کردیا جو کہ ایک بہت بڑا اور ناقابل فراموش کارنامہ ہے جس پر ہالی ووڈ اور خود بالی ووڈ انڈیا کے فلم پروڈیوسر فلمیں بنانے کے بارے میں غور کررہے ہیں اور وہ سارے عوامل معلوم کررہے ہیں جس کے نتیجے میں اتنا بڑا ایڈونچر ہو گیا۔
اس لئے کہ یہ ایک اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ کوئی بھی ذہن اسے اتنی آسانی سے قبول نہیں کرے گا اور اس کے پس پردہ عوامل کو تلاش کرنے کی ضرور جستجو کرے گا فی الحال کارڈ آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں اور اب طالبان حکومت نے اپنی خارجہ پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ملک کو اسرائیل کے لئے مکمل طور پر ”نو گو ایریا“ بنا دیا ہے یعنی اسرائیل کے ساتھ افغانستان کی طالبان حکومت بالکل بھی تعلقات نہیں رکھے گی اس طرح سے پاکستان کے بعد افغانستان دنیا کا دوسرا ملک ہے جو اسرائیل سے تعلقات نہیں رکھنا چاہتا۔
یہ ایک بہت بڑی تبدیلی سیاسی اور تجارتی لحاظ سے کم مگر مذہبی لحاظ سے بہت زیادہ ہی بڑی ہے۔ کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہی ایک جگہ ایسی ہے جس کی نشاندہی ہزاروں سال قبل مذہبی صحیفوں اور کتابوں میں کردی گئی تھی کہ وہیں سے آخری تحریک شروع ہو گی جو دنیا کے نقشے کے بدلنے کا باعث بنے گی اور دنیا کے تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال بھی اسی جانب بڑھ رہی ہے۔
پختونوں کی تقسیم اور ان کے خاتمے کے عمل اور یہ خواب مخالفین کا پورا نہ ہو سکا لیکن اس میں شدت ضرور پیدا ہوتی جارہی ہے، پختونوں کو قابل نفرت قوم ظاہر کرنے کے لئے کبھی ان پر دہشت گردی کے لیبل چسپاں کئے جاتے ہیں کبھ طالبان کبھی مجاہدین، کبھی القاعدہ اور کبھی کچھ۔۔۔ صرف اور صرف پختونوں کی نسل کشی کرنے کے لئے، لیکن کیوں؟ جس کا جواب آج طالبان حکومت نے اسرائیل پر افغانستان کے دروازے بند کرنے کی شکل میں دیدیا لیکن کیا اس بندش اس پابندی سے وہ عمل جو پختونوں کی نسل کشی کے لئے کیا جارہا ہے، وہ ختم ہو جائے گا؟ بالکل بھی نہیں، پالیسی میکروں نے افغانستان اور پاکستان کے اس مخصوص خطے سے نقل مکانی کروانے کے لئے دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے لئے سرحدین کھول دی ہیں تاکہ وہ علاقے پختونوں سے خالی ہو جائیں لیکن دشمنوں کی یہ چال بھی کامیاب نہ ہو سکی اس لئے کہ وطن پر مر مٹنے والے غیور پختون کبھی بھی مورچے خالی نہیں چھوڑتے بلکہ ہر وقت ان کی جانوں کے نذرانے وطن کی رکھوالی کے لئے تیار رہتے ہیں۔
قارئین یہ وہی بارواں قبیلہ ہے جس نے آج کے اسرائیل سے برسوں قبل اصولی اختلاف کی بناءپر علیحدگی اختیار کر لی تھی، اپنی راہیں جدا کرلی تھیں، آج وہی بچھڑا ہوا قبیلہ اسرائیل اور ان کی پالیسیوں کے لئے سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے اور یہ نعرہ ”جو قوم کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے“ یہ خاص طور سے اس بارہویں قبیلے کے لئے ایجاد کیا گیا تھا، شریعت محمدی کے ان اصل پیروکاروں کو وہ اپنی قوم کے غدار قرار دیتے ہیں اس لئے ان پر دنیا کی زمین تنگ کرتے ہوئے ان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر ان کی نسل کشی کررہے ہیں۔ جس کا جواب ”سو سنار کی ایک لوہار کی“ کے مصداق آج طالبان حکومت نے اسرائیل کو دیدیا کہ ان کا ملک افغانستان اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ہر ملک سے تعلقات رکھنا چاہتا ہے یہاں تک کہ انہوں نے ہندوستان سے بھی تعلقات قائم رکھنے کی بات کی ہے جو ان کے ملک کی تباہی کا مرکزی کردار ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی یہ حکومت اسرائیل اور ہندوستان سے اچھے مراسم نہ رکھنے کی وجہ سے کس طرح سے اپنی پالیسیوں کو لے کر آگے بڑھتی ہے، پاکستان کےسب سے بڑے حساس ادارے کے سربراہ کا کابل جانا ہی ملک دشمنوں کو ہضم نہیں ہو رہا، حکومت پاکستان کو طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات رکھنے میں خود پاکستان کے سلامتی کو مدنظر رکھنا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں