۔۔۔ جنہیں تصویر بنا آتی ہے 488

الٹی شکایتیں

بطور قوم اور بطور ملت ہم نے اپنی ساری محرومیوں کی وجہ دوسروں کو ذمہ وار ٹھہرا کر اور انہیں مطعون کرنا اپنا شعار بنا لیا ہے آج ہم میں جس قدر یہ سرست ہو چکی ہے اس سے خود بری کرنے کے لئے ہم دوسروں کو ذمہ دار گردانتے ہیں آج ہر فرد یہ کہتا نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ساری دنیا مل کر سازشیں کررہی ہے اور مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بنایا جارہا ہے مگر کوئی بھی فرد اپنی ان خرابیوں، بداعمالیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے جو بطور قوم ہم میں سرایت کر چکی ہیں اور جب ہم کسی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتے ہیں تو یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ چار انگلیاں ہماری طرف بھی اشارہ کررہی ہیں مسلمان خود اپنی ہی بھائیوں کے ہاتھوں اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ کیا افغانستان میں مسلمان مسلمان کے درپے نہیں ہیں؟ اور اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین ساری دنیا میں پناہ لینے پر مجبور ہیں اور ان ممالک میں سوائے پاکستان کے کسی دوسرے مسلم ملک نے انہیں قبول کیا ہے؟ کیا شام کے لاکھوں ہجرت کرنے والوں کو جرمنی اور کینیڈا جیسے غیر مسلم ممالک نے نہ صرف پناہ دی ہے بلکہ انہیں عزت و احترام بھی دیا ہے جب کسی مسلم ملک نے انہیں قبول کیا ہے یہاں جرمن چانسلر مرکل کا ایک جملہ مسلمانوں کے ڈوب مرنے کے لئے کافی تھا انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو بسر و چشم قبول کرتے ہیں جو اتنا بڑا فاصہ طے کرکے جرمنی پہنچے ہیں جب کہ سعودی عرب آپ سے زیادہ نزدیک تھا غرض دنیا کے بے شمار غیر مسلم ممالک نے لاکھوں مسلمانوں کو اپنے یہاں خوش آمدید کہا اور انہیں ساری حقوق عطا کئے جب کہ مسلمان ممالک دہائیوں سے وہ رہنے والے اپنے ہم مذہبوں کو شہریت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک پر ”اسلام فوبیا“ کا لیبل لگایا جاتا ہے۔ ہم نے یہ عادت بنا لی ہے کہ اپنی ہر برائی کو دوسرے کے سر تھونپ دینا۔ یہ عادت اپنی ذاتی زندگی کے ساتھ اجتماعی زندگی میں بھی در آئی ہے۔ جس اسلام فوبیا کا ڈنکا ہم رات دن پیٹ رہے ہیں وہ ہمارے گھر کے اندر ہی پروان چڑھا ہے اس کے حصار سے ہم سے مختلف نظریات رکھنے والوں کے جنہیں ہماری بصرت سے نکلتے ہیں تاریخ یہ کہہ کر مسخ نہ کریں کہ یہ 1989ءکے بعد کے واقعات کا شاخسانہ ہے دنیا کو لیکچر دینے کی بجائے پہلے اپنی تاریخ جا جائزہ لے لیں۔
اسلام کی تاریخ جنگوں سے بھری پڑی ہے اور آج شیعہ سنی فرقہ وارانہ تفریق امت مسلمہ کو بڑھتے ہوئے کینسر کی طرح اندر ہی اندر کھائے جا رہی ہے۔ ذرا ذہن پر زور ڈالیں یہ خیال انتہائی لغو ہے کہ پوری دنیا دین اسلام کے خلاف سازشیں کررہی ہے کوئی بھی کسی کے خلاف سازش نہیں کررہا ہے بس ہم خود ایک دوسرے سے ازحد نفرت کرتے ہیں ایران اور شام صدر پوٹن کے روس کو مسلمانوں کا سب سے بڑا بہترین دوست لیکن سعودی عرب کو اپنا بد ترین دشمن سمجھتے ہیں سعودی عرب امریکہ کو مسلمانوں کا ہمدرد اور دوست گردانتا ہے اور سب سے بڑا حلیف سمجھتا ہے جب کہ ایران کی سوچ اس سے مختف ہےں نتیجاً سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ خطے میں سینگ پھنسائے ہوے ہیں۔
افغانستان مودی کے ہندوستا کو اپنا سب سے بہترین دوست سمجھتا ہے لیکن پاکستان مودوی کو دشمن گردانتا ہے۔ افغانستان ڈیونڈر لائن اور طالبان کی پشت پناہی کرنے پر پاکستان کے ساتھ ناخوش ہے جب کہ طالبان انہی کے مٹی کے بنے ہیں اور کابل پر حکمرانی کے خواہاں ہیں مصر کا جنرل سیسی اسرائیل کو اپنا بہترین دوست سمجھتے ہیں جب کہ اخوان المسلمین اسے اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں اور جنرل سیسی اخوان کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں ان میںسے ایک کا اپنا ایک علیحدہ نقطہ نظر ہے۔ قطر اور ترکی نے سعودی عرب کے خَاف مزاحمت کے لئے مشترکہ محاذ بنا لیا ہے اور قطر کٹر وہابی ریاست ہے لیکن فلسطین میں حماس کو پسند کرتا ہے اس طرح خطے میں وہابی سعودی عرب کے ساتھ خاندانی تنازعات ہیں ایران کی بطور حلیف حمایت کرتا ہے قطری حمایت پر ایران خوش ہے کہ اس سے سعودی عرب کمزور ہوتا ہے۔ اس طرح دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے پاکستان دونوں کٹر مذہبی ریاستوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری نظریاتی جنگ میں میدان کارزار بنا ہوا ہے سعودی عرب یمن میں زیدیوں اور حوثیوں پر پوری فوجی قوت سے یلغار کئے ہوئے ہے جو اسلام ایران سے اپنے لئے اسلحہ حاصل کرتے ہیں جب کہ ایران حلب کی سنی آبادی کو تباہ کرنے میں شامی حکومت کی بھرپور مدد کررہا ہے جہاں سے ستر لاکھ سنی پناہ گزینوں کو شام کے اقتدار پر قابض علوی خاندان کے بشر الاسد کی جانب سے ظلم و ستم کے نتیجے میں ملک بدر ہونا پڑا۔ اسد انہیں باغی قرار دیتا ہے اور ایران کے ساتھ مل کر سنی آبادی کے خلاف جنگ کا بازار گرم کئے ہوئے ہے جب کہ روس ایران اور شامی اسد کو تحفظ فراہم کررہا ہے اب یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ایک مسلمان ریاست ہی آسانی سے کسی مسلمان کو بغیر کسی پشیمانی کے قتل کرسکتی ہے۔ اسلامو فوبیا کو ہم خود ہی ایک دوسرے کے خلاف پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ آئیے نفرت کے اس سمندر سے باہر نکل کر یہ سوچنے کی سعی کرتے ہیں کہ آخر غلطی کہاں پر ہوئی ہے آج ہم دوسروں پر انگلیاں اٹھا کر اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشس کررہے ہیں مگر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر نہیں دیکھتے غالباً ہم نے الٹا لباس پہن لیا جس کے گریبان آگے کے بجائے پیچھے اور ان میں گردن ڈال کر نہیں دیکھ سکتے۔
(لندن کے ایک مشہور اسکالر ماہر معاشیات اور عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے اقبال لطیف کی تقاریر سے متاثر ہو کر اس مضمون کی بنیاد رکھی ہے جنہوں نے عالمی سیاست اور خصوصاً مسلمانوں کی حالت زار پر تبصرے لکھے ہیں)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں