پاکستان میں دنیائے جمہوریت کے انتہائی مضحکہ خیز الیکشن ہونے جارہے ہیں، جسے الیکشن کہنا ہی خود الیکشن اور جمہوریت کی ایک طرح سے توہین ہے کیونکہ یہ الیکشن پاکستان میں رہنے والے 25 کروڑ عوام اور خود سسٹم کے خلاف ہو رہے ہیں۔ ایک طرف پوری پاکستانی قوم اور دوسری جانب سسٹم کے مٹھی بھر لوگ۔۔۔ جو پاکستان کی کل آبادی کا ایک فیصد بھی نہیں اور اصولی طور پر تو اس الیکشن کا نتیجہ پاکستانی عوام کے حق میں آنا چاہئے مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ سسٹم ہر جگہ طاقتور اور پاور فل ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ باقی دنیا میں سسٹم کبھی اپنے عوام کے خلاف نہیں جاتا اور نہ ہی قانون کو قدموں کی ٹھوکر بناتا ہے مگر بدقسمتی سے پاکستانی سسٹم جہاں طاقت ور ہے وہیں وہ ملک کے تمام قوانین سے بھی آزاد ہے اس پر کسی ایک بھی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے پاکستان کے تمام قوانین سسٹم کے آگے نہ صرف بے بس ہیں بلکہ اس سے ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہیں۔ اس وجہ سے میں بڑے دعوے کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج اکثریت کے بجائے اقلیت کے حق میں ہی آئیں گے چاہے ملکی عوام کتنا ہی زور کیوں نہ لگا دے، کتنا ہی واویلا کیوں نہ مچا دے کیونکہ رزلٹ تو پہلے سے وہیں سے بنا دیئے گئے ہیں جہاں سے عدالتی فیصلے آتے رہتے ہیں۔ الیکشن کے نام پر جمہوریت کے نام پر آمریت میں ڈوبے پاکستان میں ایک مذاق برپا کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں آزادی اور خودمختاری کا ایک ننگا ڈانس کروایا جارہا ہے جس میں پاکستان کی وہ ساری سیاسی پارٹیاں شریک ہیں جنہیں ملکی عوام مسترد کرچکی ہیں۔ ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے والے میاں نواز شریف کی مقبوصیت کا عالم یہ ہو گیا ہے کہ وہ جیل میں قید ایک خاتون ڈاکٹر سے الیکشن جتنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے، یہ ہی حال ان کی صاحبزادی مریم صفدر کا ہے کہ اپنے مدمقابل آنے والوں پر جھوٹے مقدمات بنوا کر انہیں جیل بھجوانے اور ان کے ووٹرز اور سپورٹرز پر پولیس کے ذریعے زندگی تنگ کرنے کے باوجود بھی وہ کوئی ایک کامیاب جلسہ نہ کرسکی، کسی کارنر میٹنگ میں ایک ہزار لوگوں کو بھی جمع نہ کرسکی اور چلے آئے ہیں پاکستان کا چوتھی بار وزیراعظم بننے۔۔۔؟
لیکن اس کے باوجود ”ری پبلک بنانا“ میں ایسا ہونا ممکن ہے کیونکہ یہاں سسٹم بہت مضبوط ہے اور سارے کام سسٹم ہی کرتی ہے، حکومت بنانا ہو یا حکومت گرانا۔ یہ کام پاکستانی سسٹم کے لئے کوئی مشکل کام نہیں بلکہ بائیں ہاتھ کا کام ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ اس وقت پاکستانیوں کے جاگ جانے کی وجہ سے ان کا چٹکی بجا کر کیا جانے والا معمولی کام بھی پسینے میں شرابور ہونے کے باوجود نہیں ہو پاتا بلکہ اپنے معمولی سے کام کو کرنے کے لئے انہیں پوری طرح سے ہرہنہ ہونا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے سسٹم کو اب اپنے ہی عوام پر کوڑے برسانا پڑ رہے ہیں کیونکہ ان کا کام مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے اور انہیں اتنا مشکل کام کرنے کی عادت ہی نہیں؟ 8 فروری کے اس الیکشن کے نتائج بہت بڑی قربانی کا تقاضا کررہی ہے وہ قربانی جسے ملکی عوام کے اس بیداری شعوریت کی سزا کا نام دیا گیا ہے۔ بدنصیب پاکستان میں ایک اور بہت بڑی تاریخ کو دھرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ملک سے دین سے محبت کرنے والوں کو نشان عبرت بنا دیا گیا ہے۔ سائفر کیس کی سماعت کرنے والی عدالت نے یکطرفہ طور پر انتہائی عجلت میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال بامشقت قید کی سزا سنا دی ہے۔ اس سزا نے جہاں عمران خان کے بیانات اور دعوﺅں کی حرف بہ حرف تصدیق کردی ہے بلکہ رجیم چینج آپریشن میں امریکہ کی مداخلت بھی ثابت کردی ہے اس طرح سے یہ عدالتی فیصلہ جو بددیانتی کے بناءپر سنایا گیا ہے اس نے ایک بار پھر عمران خان کو نہ صرف دنیا کا ایک سچا بلکہ دلیر اور پاکستان اور اسلام سے جنون کی حد تک محبت کرنے والا بھی ثابت کردیا ہے۔ یہ عدالتی فیصلہ ایک طرح کا ریفرنڈم بن گیا ہے اور اس فیصلے نے عمران خان کی سچائی ان کی کامیابی اور ان کے سارے مخالفین کی عبرتناک شکست پر ایک مہر ثبت کرلی ہے، اب پاکستانی عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے حقیقی آزادی کے حصول اور ملک کو دشمنوں کے نرغے سے نکالنے کے لئے 8 فروری کے اس الیکشن میں عمران خان کے جانثاروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروائیں، اسی میں پاکستان کی حقیقی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔
