عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 104

الیکشن یا پھر سلیکشن؟

جتنا فرق زمین اور آسمان، سفید اور کالے یا پھر دن اور رات میں ہے اتنا ہی فرق الیکشن اور سلیکشن میں ہوتا ہے یعنی اپنی پسند اور سب کی پسند؟ اس وقت بدقسمت پاکستان میں الیکشن کے نام پر پاکستانیوں سے بالعموم اور دنیا بھر کے لووں سے بالخصوص ایک دھوکہ کیا جارہا ہے۔ ایک اس طرح کی کشتی پہلوانوں سے کروائی جارہی ہے جس میں سب سے زیادہ بہادر، دلیر اور طاقتور پہلوان کے نہ صرف ہاتھ بلکہ ان کی ٹانگوں کو بھی باندھ کر اور منہ پر ٹیپ چسپاں کرکے انہیں دنگل میں اتارا جارہا ہے انہیں ایسے پہلوانوں سے لڑوایا جارہا ہے جو ان کے طاقت زور اور دبدبے کے آگے کیڑے مکوڑے اور چونٹیوں سے زیادہ ان کی اہمیت نہیں۔ یہ تماشا دیکھنے والے اور تماشہ کروانے والے اچھی طرح سے جانتے بھی ہیں اور پہچانتے بھی ہیں کہ اگر اس طاقتور اور دلیر بہادر پہلوان کے ہاتھ کھول دیئے گئے تو ان سے مقابلہ کرنے کے خواہش مندوں کی کوئی ایک بھی ہڈی سالم نہیں رہے گی۔ اس لئے وہ پہلوان اس شرط پر اس اکھاڑے میں اترے ہیں کہ وہ ہاتھ پاﺅں بندھے پہلوان سے تو لڑ سکتے ہیں مگر کسی آزاد پہلوان سے نہیں۔۔۔؟
یہ وہ کھیل ہے جسے پاکستان میں 8 فروری کے الیکشن کا نام دیا گیا ہے جو دراصل الیکشن نہیں ایک طرح سے سلیکشن ہے اور ایک انتخابی پراسسز سے گزار کر دھتکارے ہوئے انہی لٹیروں کو دوبارہ سے بندر بانٹ کے تحت مسند اقتدار میں لانے کی ساری کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس سارے کھیل تماشے میں پاکستان کی 24 کروڑ عوام کہاں ہے، کسی کو نہیں معلوم۔۔۔؟
ان کی رائے ان کی خواہشات ان کی مرضی ان کے ارادے کسی گنتی میں نہیں۔ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ کیوں کہ یہ الیکشن نہیں سلیکشن ہیں جنہیں بند کمروں میں سلیکٹ کرلیا گیا ہے، انہیں انتخابی پراسسز سے گزار کر وزیر اعظم اور وزراءاعلیٰ بنوانا ہے۔ پاکستان کا پورے کا پورا نظام ساری سرکاری مشینری اس وقت کمپرومائیز ہو چکی ہے سب کھلی آنکھوں سے یہ سارا کھیل یہ سارا ڈرامہ دیکھ رہے ہیں کسی ایک بھی سرکاری افسر کسی یک بھی بڑے سے بڑے جج میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ وہ اٹھ کر حق اور سچ کی آواز بلند کرے۔
لگتا ہے کہ سارے سرکاری افسروں کو چوڑیاں پہنا دی گئی ہیں، کوئی ایک بھی یا تو سچ جاننے کی حس سے محروم ہوچکا ہے یا پھر سچ کہنے سے۔۔۔ اس وجہ سے سب کے سب گونگے بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کی 24 کروڑ عوام مٹھی بھر لوگوں کے ہاتھوں غلام بنی ہوئی ہے۔ آخر ان کی اس غلامی سے کون نجات دلائے گا؟ کون انہیں حقیقی آزادی کے زیور سے آراستہ کرے گا؟ کون۔۔؟
اس وقت یہ ہی سارا کھیل ملک بھر میں چل رہا ہے، ایک طرف پکڑ دھکڑ، مقدمات، گولیاں چل رہی ہیں، تو دوسری طرف سرکاری مشینری سیاستدانوں کی الیکشن کمپیئن میں استعمال کی جارہی ہیں۔ ایک عجیب سا یکطرفہ تماشہ ملک میں چل رہا ہے، سرکاری مشینری کو دو الگ الگ پیمانوں پر استعمال کیا جارہا ہے، ملک کا عدالتی نظام کے الگ الگ مظاہر سامنے آرہے ہیں، ایک ہی ترازو سے کسی کو کس طرح سے تولا جارہا ہے اور کسی کو کسی اور طرح سے غرض ملک میں انصاف اور قانون کا کوئی نام و نشان نہیں۔
حق اور سچ کی آواز بلند کرنے والوں عمران ریاض خان بنا دیا جاتا ہے۔ ان سے بولنے اور کچھ کہنے کی ساری صلاحیت اور طاقت چھین لی جاتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان 1947ءسے بھی پہلے والے پاکستان سے بدتر ہو کر ایتھوپیا، میانمار اور صومالیہ، یمن کی صورتحال اختیار کر گیا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ ملک میں جمہوریت کا ڈول تو پیٹا جا رہا ہے مگر جمہور یعنی عوام کو خاطر میں نہیں لایا جارہا ہے ان کی اصلیت اور حالت حکمرانی کرنے والوں کی نظر میں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں۔ بلیک میلنگ کے ہتھیار سے زندہ ضمیر اور ملک سے محبت کرنے والے ججوں اور اعلیٰ سرکاری افسروں کو ڈرایا اور دھمکایا جارہا ہے تاکہ کوئی بھی الیکشن بمقابلہ سلیکشن کے اس کھیل میں رکاوٹ نہ بنے۔ مٹیاری سندھ کے ڈپٹی کمشنر کی طرح سے دوسروں کو بھی اپنے ضمیر کے مطابق آواز حق بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی میں پاکستان کی سلامتی، بقائ، فلاح و ترقی مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں