جیسی رعایا ویسے حکمران 209

امریکی افواج کا انخلاءاور افغان امن

جنوبی ایشیاءکا امن افغانستان کے امن و استحکام کیساتھ جڑا ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں سے افغان عوام کی تین نسلیں کسمپرسی و نامساعد حالات، مایوسی و بے یقینی کے ساتھ پل رہی ہیں ، جس کے مضر اثرات سے ہزاروں سال کی تاریخ رکھنے والی قوم کی بقا و سلامتی کو مستقبل میں خطرات کا سامنا ہے ، اور اس کی ذمے داری یکساں طور پر تمام حملہ آوروں پر عائد ہوتی ہے ۔ امریکہ افغانستان میں اپنی تاریخی شکست کے بعد اپنی فوجیں وہاں سے نکال رہا ہے لیکن اس دوران اس کی کوشش ہے کہ کچھ ایسے حالات ضرور پیدا کر دیے جائیں کہ جس سے افغانستان کے ہمسایہ ممالک بالخصوص پاکستان کے لئے مشکلات پیدا ہوں۔ ماضی کی طرح امریکہ کو کوئی فکر نہیں کہ افغانستان میں اس کے نکلنے کے بعد وہاں کیا ہوتا ہے اور حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں؟ اس کی البتہ یہ خواہش ضرور ہوگی کہ پاکستان کے لئے مشکلات بڑھیں اور سب سے بڑی کامیابی امریکہ کے لئے یہ ہو گی کہ پاکستان امریکہ کو ائیر بیس فراہم کر دے ۔9/11 کے بعد پاکستان کو نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا درجہ دے کر افغانستان پر حملہ کیا لیکن اصل میں افغانستان بہانہ جبکہ پاکستان نشانہ تھا جس کے اندر دہشت گردی کو دھکیلا گیا، دہشت گردوں کو افغانستان میں مکمل سپورٹ دی گئی۔ امریکی سازش جلد ہی پاکستان کی سمجھ میں آ گئی اور پھر پاکستان نے وہ کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا اور جس کا مقصد پاکستان مخالف سازش کو ناکام بنانا تھا۔ اگر امریکہ نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے ساتھ ڈبل گیم کی تو پاکستان نے بھی اس کو خوب جواب دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے دور میں اس وقت کے امریکی صدر اباما کو کئی صفحات پر مشتمل ایک نان پیپر (Non Paper) دیا تھا جس میں اس سازش کا واضح ذکر تھا کہ امریکہ پاکستان میں افراتفری پھیلانے کے ساتھ ساتھ اسلامی ملک کے نیو کلیئر پروگرام کو نشانہ بنانا چاہتا ہے ۔
فرنٹ لائن اتحادی بن کر ہم نے امریکہ کے لئے جو کچھ کیا اس کے بدلے میں ہمیں ہی بدامنی، دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت کو خوب اندازہ ہے کہ اس وقت امریکہ کو ہوائی اڈے دینے کا مطلب پاکستان کو ایک بار پھر اس بدامنی اور دہشت گردی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہو گا جس سے ہم نے بہت قربانیوں کے بعد جان چھڑائی تھی۔ پاک افغان دو طرفہ تعلقات کے موضوع پر ہونے والی ایک حالیہ تقریب میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا خطاب افغانستان کی صورت حال میں پاکستان کی جائز شکایات کا برمحل اظہار تھا۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیام امن کی کوشش مشرکہ ذمہ داری ہے اور پاکستان اس سلسلے میں اپنا تعمیری کردار جاری رکھے گا، تاہم الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے ۔ واضح رہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کوئی نئی بات نہیں، تاہم اپنے ہمسایہ ملک میں حالات کی بہتری اور استحکام کی خاطر جو کچھ پاکستان کی جانب سے کیا گیا ، اس کے بدلے میں یہ الزام تراشی یقینا دکھ کا باعث ہے ۔ افغان حکومتی قیادت کا یہ رویہ دراصل یہ ظاہر کرتا ہے کہ کابل حکومت نے حالات سے کچھ بھی نہیں سیکھا اور وہ حالات کو بہتر کرنے کے عمل کو بھی غیر سنجیدگی سے لے رہی ہے ۔
ایک ہمسایہ ملک جو آپ کے داخلی امن کو اپنے ہاں امن سے تعبیر کررہا ہے اور ایک لمبے عرصے سے امن کے عمل کی راہ ہموار کرنے میں مدد کررہا ہے ، کیااس کی ان کاوشوں اور خلوص کا صلہ یہ ہے کہ اس پر الزام لگائے جائیں۔ کابل حکومت امن عمل کی پیش رفت میں اپنی ناکامی کا جواز پاکستان کو کیسے بنا سکتی ہے ؟ افغان امن عمل کی پیش رفت میں جو بھی رکاوٹیں ہیں دراصل افغان قیادت کے اپنے بحران ، عدم اعتماد اور آگے کی صورتحال کے لیے ذہن واضح نہ ہونے کی نشانی ہیں۔اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ افغان دھڑوں میں اعتماد اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کی سوچ پیدا ہو۔بہتر ہوتا کہ اس صورتحال کے لیے افغان قیادت پہلے سے تیار ہوتی ، مگر اب بھی کچھ وقت ہے جس میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ اس مرحلے پر ہمسایہ ممالک اور خطے کے شراکت دار افغان دھڑوں میں نئی شروعات کے رکے ہوئے عمل کو بحال کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ افغان رہنماو¿ں کو اس وقت کو پیش نظر رکھ کر سوچنے کی ضرورت ہے جب غیر ملکی فورسز افغانستان چھوڑ جائیں گی ، اس دور میں افغان نئی شروعات کس طرح کریں گے ؟ کیا افغانستان کو استحکام کا موقع فراہم کیا جائے گا یا 80 ءکی دہائی کے آخر میں روس انخلا کے بعد کی صورتحال رود کر آئے گی، اس کا انحصار افغان قیادت کے کردار پر ہے ۔ مگر افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی لازمی خواہش یہ ہو گی کہ خطے میں امن قائم ہو اور افغان متحارب دھڑے نئی شروعات کریں ، مگر اس کے لیے افغان حکمرانوں کی آمادگی بنیادی شرط ہے ، اور یہ سوچ اسی وقت بیدار ہو گی جب افغان رہنما اپنے ملک اور قوم کے درد کو محسوس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کو پہچانیں گے ۔ جب جذبہ یہ ہو گا تو پھر پاکستان جیسے مخلص ومعاون و مدد گار ہمسائے پر شبہات اور الزامات کا رویہ نہیں ہو گا بلکہ شکرگزاری اور احسان مندی کی سوچ اجا گر ہو گی۔
پاکستان چونکہ افغانستان کا قریب ترین ہمسایہ ملک ہے اور افغانستان کے ساتھ جغرافیائی قربت رکھنے والے دیگر ممالک کے مقابلے میں پاک افغان تعلق کی نوعیت مختلف ہے ، یہاں صرف جغرافیائی قرب ہی نہیں نسلی ، بلکہ لسانی اور ثقافتی یکسانیت کا عمل دخل بھی ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے افغانستان کی صورتحال سے مکمل طور پر لا تعلق ہوجانا ممکن نہیں۔ افغانستان کی داخلی صورتحال پاکستان پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے ۔ سرحد پار سے دہشت گردی ، سمگلنگ اور تخریب کاری کی وارداتوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ۔ چنانچہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ ان حالات میںجب افغانستان ایک بڑی تبدیلی کے مرحلے میں ہیں دنیا کو اپنے خدشات باور کروائے ۔ دوسری جانب افغانستان کو طویل انتشار کے بعد نئے سرے سے سنبھلنے کا موقع مل رہاہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ امن اور استحکام کے اس نایاب موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ممالک پر الزام تراشیوں کی بجائے تمام صلاحیتیں افغان امن عمل پر مرکوز کی جائیں تاکہ امریکی افواج کے انخلاءکے بعد یہ خطہ خانہ جنگی کا شکار نہ ہو، اور نہ صرف افغانستان بلکہ پورا جنوبی ایشیاءامن کا گہوارہ بن سکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں