ہمیں یقین ہے کہ آپ سب ہی امریکی جمہوریت، اور وہاں کے انتخابات کی روایات کو دنیا بھر کے لیئے مثالی سمجھتے رہے ہوں گے۔ اگر آپ امریکہ کے شہری ہیں تو اس پر آپ کا یقین محکم ہوگا۔ یہی وجہہ ہے کہ امریکہ دنیا بھر میں اپنے تئیں جمہوری روایات کے فروغ کی کوشش کرتا رہا ہے، بالخصوص ان ممالک میں جہاں اس کا سیاسی اور معاشی اثر زیادہ ہے۔ امریکہ پر کئی طرح کی تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔ کیونکہ عام خیال یہ بھی ہے کہ اپنی تمام تر روایات کے بر خلاف، امریکہ نے اکثر تیسری دنیا کے ممالک میں سخت جابر اور فوجی آمریتوں کو بھی مستحکم کیا ہے۔
تمام تر اختلافات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ خود امریکہ میں گزشتہ ڈھائی سو سالوں میں نہایت جدو جہد کے بعد جو جمہوری اور آئینی نظام قائم ہے وہ تسلسل سے عام طور پر پوری دیانتداری کے ساتھ جاری رہا ہے۔ وہاں ہر چوتھے سال صدر کا باقاعدگی سے معین وقت پر انتخاب ہوتا ہے۔ اور اقتدار نہایت پر امن طور پرنئے منتخب صدر کو منتقل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک معینہ عرصہ کے بعد ایوانِ زیریں اور ایوانِ بالا، اور ریاستوں کے گورنروں کے انتخابات ہوتے ہیں۔
ان دو صدیوں کے بعد سنہ 2020ءکے صدارتی انتخابات امریکی تاریخ کے بد ترین انتخابا ت بن رہے ہیں۔ اس بار صدر ٹرمپ، جو اب سے چار سال پہلے نہایت حیران کن طور پر انتخابات جیتے تھے، دوبارہ امیدوار تھے۔ امریکہ میں ایک شخص کو صرف دو بار صد ر بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے منتخب ہوتے ہی نہ صرف امریکی سیاست میں ایک تہلکہ مچایا بلکہ مستحکم عالمی نظام کو بھی تحس نحس کر دیا۔ انہوں نے خود اپنے ملک میں شدت پرست قدامت پرستی کو پروان چڑھایا، نسلی بعد کو گہرا کیا ، اور امیر اور غریب کے فرق میں سنگین ترین اضافہ کیا۔
ان کے اکثر اقدامات امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر اوباما کے خلاف ردِ عمل میں تھے۔ وہ صدر اوباما کے خلاف سازشی نظریات کو پھیلانے میں پیش پیش تھے۔انہوں نے ہی اس افواہ کو فروغ دیا کہ صدر اوباما، امریکہ کے شہری نہیں تھے، اس لیئے ان کا انتخاب غیر قانونی تھا۔ امریکہ کی نسل پرست سیاست میں یہ سازش بہت مقبول ہوئی، اور امریکی معاشرہ کے قدامت پرست اور نسل پرست افراد ان کے حامی ہو گئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ امریکہ میں نسل پرستی کی تقسیم گہری ہے اور امریکیوں کی ایک واضح بڑی تعداد اس پر عمل پیرا ہے۔ بالخصوص دیہاتی علاقوں میں۔ یہی صورتِ حال امریکہ کے کم تعلیم یافتہ شہریوں میں بھی ہے۔
اپنے سازشی، نسل پرستانہ، ااور قدامت پرست خیالات کی بنیاد پر اور بالخصوص مذہبی قدامت پرست عیسایﺅں کی حمایت پر صدر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے امریکہ کے سینکڑوں سالوں پر مبنی نظام کی شکست و ریخت شروع کر دی۔ اب سے پہلے امریکہ کے غریب شہریوں کی حمایت کے لیئے جو اقدام کیئے گئے تھے انہیں لپیٹنا شروع کیا، ان میں اہم ترین صحتِ کا جو نظام صدر اوباما نے قائم کیا تھا وہ سب سے پہلے ان کی زد میں آیا۔ اسی طرح امریکی ایوانِ بالا میں اپنی جماعت کی اکڑیت کی بنیاد پر انہوں نے مفادِ عامہ کی ہر قانون سازی میں روڑے اٹکائے۔ ان کے بعض اقدامات مذہبی تعصب کی بنیا د پر تھے۔ جس میں انہوں نے واضح طور مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکہ آمد پر قدغن لگائی۔ اس کے علاوہ انہوں نے لاطینی امریکہ سے آنے والے پناہ گزینوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کیئے۔ ان کا ایک قابلِ نفرت عمل وہ تھا جب ان کے حکم پر ماں باپ سے ان کے بچوں کو علیحدہ کیا۔ اور اب یوں ہے کہ کم از کم چھ سو بچوں کے والدین کا سراغ نہیں مل رہا ہے۔
ان کے بعض غیر اخلاقی اور غیر قانونی اقدامات کا امریکہ کے قانون کے مطابق مواخذہ ہوا ، اور ایوانِ بالا میں ان پر فرد ِ جرم عائد ہوئی۔ ایسا امریکہ کی تاریخ میں صرف دو بار ہوا تھا۔ لیکن ان کی جماعت نے ایوانِ بالا میں اپنی اکثریت کی بنیاد پر انہیں بری کر دیا۔
اب یوں ہے کہ وہ تازہ ترین انتخابات میں سابق امریکی صدر بائڈن سے شکست کھا گئے ہیں۔بائڈن نے اب تک تقریباً اناسی ملین ووٹ حاصل کیئے ہیں۔ جب کے صدر ٹرمپ نے تہتر ملین ووٹ حاصل کیئے ہیں۔ اس لحاظ سے بائڈن کو امریکہ کے صدارتی انتخابات میں تاریخی طور پر سب سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ لیکن صد ر ٹرمپ نے بھی شکست خورد امیدوار کے لیئے ووٹوں کی ایک تاریخی تعدا د حاصل کی ہے۔
شکست کھانے کے بعد صدر ٹرمپ نے وہی شور و غل برپا کیا ہے ، جو تیسر دنیا کی پسماندہ جمہوریتوں میں ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کے حامیوں نے بعض انتخابی مراکز کا گھیراﺅ بھی کیا۔ اور بعض موقعوں پر صدر کی شکست کے خلاف تشدد بھی برپا کیا۔ صدر ٹرمپ نے شکست تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ اور عدالتوں میں لا تعداد مقدمات دائر کرکے نتائج کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب تک کئی عدالتوں نے ایسے مقدمات خارج کر دیئے ہیں۔ لیکن قضیہ اور صدر ٹرمپ کی ضِد جاری ہے۔
غیر جانبدار مبصرین کی رائے میں صدر ٹرمپ کے یہ اقدامات اور میں نہ مانوں کی رٹ امریکی جمہوریت کو سخت نقصان پہنچائے گی۔ اب دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
