امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 519

امریکی صدر ٹرمپ: سفید فام نسل پرست؟

ان دنوں امریکی صد ٹرمپ پر نسل پرستی کے الزام لگ رہے ہیں۔ اس معاملے میں گزشتہ دنوں شدت یوں آئی کہ انہوں نے امریکی کانگریس کی چار خاتون اراکین کی طرف سے اپنے اوپر مختلف تنقید اور اعتراضات کے بعد بعض گھسے پٹے لیکن رکیک نسل پرستانہ جملے استعما ل کیے۔ یہ چاروں غیر سفید فام ہیں، اور ان کا تعلق سیاہ فام، لاطینی، عرب، اور افریقی نسلوں سے ہیں۔ ان چاروں کا تعلق امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے جو امریکی کانگریس کے ایوانِ زیریں سے ہے۔
ان کے نام :
Alexandria Ocasio-Cortez, Rashida Tlaib, Ayanna Pressley and Ilhan Omar ہیں۔
ایانا پریسلی، سیا ہ فام ہیں، الہان عمر صومالیہ سے آئی ہیں، رشیدہ طلیب فلسطینی نژاد ہیں اور امریکہ کے شہر ڈیٹروئٹ میں پیدا ہوئی تھیں۔ الیگزینڈریا کورٹیز لاطینی نژاد ہیں، اور نیو ےورک میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان چاروں خواتین کی مشترکہ خاصیت یہ بھی ہے کہ یہ امریکی کانگریس کے اراکین میں نسبتاً کم عمر ہیں۔ گویا ان چار میںسے تین امریکہ کی ایسی شہری ہیں جو اب سے کئی دہائی پہلے، امریکہ ہی میں پیدا ہوئی تھیں۔
اپنی پالیسیوں کی مخالفت اور ان پر اعترضات سے تنگ آکر، ان چاروں کے خلاف جو رکیک، گھٹیا اور نسل پرستانہ بیان صدر ٹرمپ نے دیئے وہ اس طرح کے ہیں: ” اگر آپ کو میری یا امریکی پالیسیاں پسند نہیںتو آپ وہاں چلی جایئں جہاں سے آپ آئی ہیں۔“ ” یہ خواتین شدید یہود دشمن ہیں “۔” ان کا تعلق ان ملکوں سے ہے جہاں عورتوں پر تشدد عام ہے۔“ یا ”جہاں غنڈے اور منشیات پرست بستے ہیں“۔” ان میں سے عرب نژاد خواتین کا تعلق القاعدہ سے ہے۔“
یہ خواتین اور امریکہ کے انسان دوست صدر ٹرمپ کی جن پالیسیوں کی مخالفت کر رہے ہیں ان میں : چنید ہ مسلم ممالک کے شہریوں کے امریکہ آنے پر پابندیاں، لاطینی پناہ گزینوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندیاں، امریکی سرحدوں پر بچوں کا ان کے ماں باپ سے جبری طور پر الگ کیئے جانا، سیاہ فاموں کے انتخابات میں حصہ لینے میں رکاوٹیں، ایران پر بے جا سخت پابندیاں، اسرائیل کی حد سے زیادہ حمایت، عورتوں کے حقوق پر قدغنیں، عورتوں کے خلاف رکیک زبان کا استعمال، ہم جنس پرستوں کے حقوق کے خلاف کاروایئاں، بین الاقوامیت کے خلاف کھلی کاروائیاں، سعودی عرب کی یمن کی جنگ میں بالواسطہ حمایت، اور ایسی بے شمار پالیسیاں شامل ہیں۔
ایک ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ وہ ایسی ساری پالیسیاں کانگرس کی منظوری کے بغیر اپنے صوابدیدی اختیارات کے استعمال سے نافذ کر رہے ہیں۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ ان کو کانگرس میں اتنی اکثریت حاصل نہیں ہے کہ انہیں وہاں کھلی چھٹی مل جائے۔
جو زبان وہ استعمال کر رہے ہیں وہ امریکہ اور دنیا کے گھٹیا ترین نسل پرست کرتے ہیں۔ ان پر نسل پرستی کے صرف الزامات ہی نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرینِ سماجیات انہیں کھل کر نسل پرست کہہ رہے ہیں۔ خود امریکہ میڈیا اور عالمی میڈیا کے انسان دوست طبقہ بھی انہیں نسل پرسست قرار دے رہے ہیں۔ جس بات نے اور بھی برہم کردیا وہ یہ ہے کہ امریکی کانگریس کے ایوانِ زیریں نے، جہاں ان کے مخالفین کی اکثریت ہے، ان کے خلاف اکثریت سے ایک علامتی قرار داد منظور کی ہے جس میں ان کے بیانات کو ’نسل پرستانہ‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کسی صدر کو نسل پرست کہہ کر اس کی مذمت کی گئی ہو۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے جلسوں میں اپنی مخالف اراکین کے خلاف انہیں امریکہ سے نکالے جانے کے مطالبے کے نعرے لگوائے اور انہیں شہہ دی۔ بعد میں انہوں نے پھر کہا کہ یہ نعرے امریکی رائے عامہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ان کی جماعت کے اراکین ان کے دفاع میں ان کے گرد حصار باندھے کھڑے ہیں، اور امریکہ کے شدید قدامت پرست کاروباری اور قدامت پرست میڈیا ان کو بھاری مالی امداد بھی دے رہے ہیں، اور میڈیا میں ان کے بیانات کی حمایت کر رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کینیڈا کے شہری ہیں، اس ذہنیت سے یا اس نسل پرستی سے محفوظ ہیں؟ بد قسمتی سے اس کا جواب نفی میں ہے۔ آپ اس قسم کے جملے اور رویہ روز برداشت کرتے ہوں گے اور خون کے گھونٹ پی کر خاموشی ہی کو مصلحت جانتے ہوں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ کینیڈا کے وزیرِ اعظم ٹروڈو بھی جو انسان دوست کی زبانی جمع خرچ کرتے ہیں ، کھل کر امریکی صدر کو نسل پرست کہنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اونٹاریو کے وزیرِ اعلی فورڈ خفیہ اور اعلانیہ نسل پرستی کی حمایت کرتے ہیں۔ اسی طرح کینیڈا کی نئی اور شدید قدامت پرست جماعت کے رہنما میکسسیم برنیئر کو بھی بعض حلقے نسل پرستی کا حمایتی سمجھتے ہیں۔ کینیڈا کے کئی صوبوں میں نسل پرستی عام ہے۔
انسان دوست ہونے کے ناطے سے ہماری اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف امریکہ میں بلکہ خود کینیڈا اور دنیا کے ہر گوشہ میں ’نسل پرستی‘ اور انسانی حقوق کے خلاف کاروایﺅں کی مخالفت کرتے رہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں