امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 410

امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذہ کی تحقیقات

آج کل امریکی جمہوریت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گذر رہی ہے۔ اب سے دو سال قبل امریکی صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اب تک امریکی شہریوں کے اکثریتی طبقہ میں ان سے ناراضگی کی ایک زیریں لہر موجود ہے۔ اس طبقہ کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ قابلیت نہ ہونے کے باوجود چال بازی سے صدر بن گئے تھے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ وہ گزشتہ انتخابی مہم میں سب سے آخر میں شامل ہونے کے باوجود حیران ک±ن طور پر اپنی ہی جماعت کے سرکردہ اراکین کو شکست دے کر کامیاب ہو گئے تھے۔
جب سے اب تک وہ امریکہ کی جمہوری روایت کے برخلاف آئین میں موجود بے پناہ صدارتی اختیارات حاصل ہونے کی بنیاد پر تقریباً آمرانہ من مانیا ں کرتے ہوئے ایسے فیصلے کر رہے ہیں جن کی بنیاد پر امریکی جمہوری نظام نزاع کی زد میں ہے۔ ان فیصلوں کے نتیجہ میں داخلی اور خارجی پالیسیوں میں زبردست منفی تبدیلیاں ہو رہی ہیں ، جن کے نتیجہ میں نہ صرف امریکی سیاسی نظام بلکہ امریکہ کے بین الاقوامی تعلقات میں دراڑ پڑ رہی ہے۔
امریکہ کے بانیوں نے امریکہ کے قیام کے پہلے ہی عشرہ میں ایک ایسا آیئن مرتب کیا تھا جس میں کسی بھی جماعت کو اپنی اکثریت کی بنیاد پر من مانی کرنے یا امریکی صدر کو حاصل بے پناہ اختیارات کو ناجائز طور استعمال کرتے ہوئے آمرانہ یا شاہانہ طور پر حکومت سے روکا گیا ہے۔
آئین کے تحت امریکہ میں صدارتی نظام کے تحت حکومت کی جاتی ہے۔ وہا ں سیاست کے تین بنیادی عناصر ہیں۔ انتظامیہ، مقننہ ، اور عدلیہ۔ گو دنیا کے دیگر جمہوری نظام بھی انہی اکایﺅں پر مشتمل ہوتے ہیں، لیکن امریکی نظام میں حکومت کے کسی بھی ایک ستون کو استحصال سے روکنے کے لیئے قدغنیں لگائی گئی ہیں۔ انتظامیہ کا سربراہ صدر ہوتا ہے جسے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں۔ مقننہ دو ایوانوں یعنی سینٹ یا ایوانِ بالا ، اور ’ہاﺅس‘ یا ایوانِ زیریں پر مشتمل ہے۔ صدر پر لازم ہے کہ وہ اپنی کابینہ کے اہم اراکین یا دیگر بڑے سرکاری افسرو ں کی تعیناتی کے لیئے ایوانِ بالا کی اکثریتی رضامندی حاصل کرے۔ ان اراکین میں اعلیٰ عدالتوں کے جج بھی شامل ہیں۔ عدلیہ کو اختیار ہے کہ وہ صدارتی اختیارات کے استعمال پر نظر رکھے ، اور ساتھ ہی ان تمام قوانین کی بھی پرکھ کرے اور ان کی آئینی بنیاد کی تفہیم پرحتمی فیصلہ دے۔ گزشتہ دو سو سے زیادہ سالوں میں میں امریکی آئین اور اس میں شامل احتسابی اصولوں کے تحت امریکی جمہوریت دنیا بھر کے لیئے قابلِ تقلید مثال بن گئی تھی۔
اس عرصہ کے دوران یہ بھی ہوا کہ امریکہ میں دو ایسی جماعتیں قائم ہو گئی ہیں جن کی پالیسیوں میں واضح نظریاتی تفریق ہے۔ وہاں کی ریپبلیکن جماعت دایئں بازو کی قدات پرست جماعت ہے، جس پر کٹّر سرمایہ داروں اور مذہب پرستوں کا غلبہ ہے۔ اس میں نسل پرست طبقہ بھی بڑی تعداد میں شامل ہے۔ دوسری اہم جماعت ڈیموکریٹک جماعت ہے جس میں نرم خو سرمایہ دار اور آزاد خیال عناصر کی اکثریت ہے۔ یہ عموما ً نسلی ہم آہنگی کا بھی پرچار کرتے ہیں۔اکثر ایسا ہوتا رہا ہے کہ ایوانِ بالا اور ایوانِ زیریں میں دو مختلف جماعتوں کی اکثریت ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے کئی فیصلے باہمی رضا مندی سے ہوتے ہیں، اور یوں ایک توازن قائم رہ پاتا ہے۔
گزشتہ تیس سال کے عرصہ میں دنیا بھر میں ابھرتی اور پھیلتی ہوئی مذہبی اور معاشی قدامت پرستی نے امریکہ پر بھی اثر ڈالا۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ بنیاد پرستی کی عالمی لہر خود امریکی شدت پرستوںکی باقاعدہ حمایت کی بنیاد پر پھیلی ہے جس میں دولت کااستعمال شامل ہے۔ امریکہ میں نسل پرستی اور بنیاد پرستی وہا ں پہلے سیاہ فام صدر کے انتخاب کے بعد شدت پکڑ گئی۔ اسی شدت پرستی کے نتیجہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے جنہیں سفید دفام نسل پرستوں کی واضح حمایت حاصل تھی۔
صدر ٹرمپ اختیار سنبھالنے کے فوراً ہی بعد ان پر اقربا پروری، نااہل لوگوں کو حکومت میں شامل کرنے، عالمی نظام کو درہم برہم کرنے، اور اختیارات کے ناجائز استعمال ، وغیرہ کے الزامات لگنے لگے تھے۔ اس وقت سے وہاں کے ایوانِ زیریں میں جہاں ڈیموکریٹک جماعت کی اکثریت ہے ، ان کے خلاف باقاعدہ تحقیقات ہوئیں جو اایک سال سے بھی زیادہ عرصہ جاری رہیں۔ جس کے نتیجہ میں صدر کے من مانے فیصلہ بھی سامنے آئے اور کچھ اخلاقی کمزوریاں بھی ثابت ہوئیں۔ جب سے اب تک ان کے متعین کردہ کئی افسروں کو جیل کی سزا ہوئی، اور کچھ کے خلاف اب بھی تفتیش جاری ہے۔ لیکن صدر خود بعض آئینی اور قانونی باریکیوں اور مو شگافیوں کے وجہہ سے اپنا اختیار بچا پائے۔ لیکن اس عرصہ میں انہوں نے امریکی سپریم کورٹ میں قدامت پرستوں کی واضح اکثریت قائم کردی۔ اس کے لیئے امریکی ایوانِ بالا کے بعض قاعدوں میں تبدیلی کی گئی۔اس ایوان میںصدر کی قدامت پرست جماعت اکثریت میں ہے۔
گزشتہ چند ماہ میں صدر پر الزام لگا کہ انہوں نے امریکی سیاست میں اپنی برتری حاصل کرنے کے لیئے ایک غیر ملک سے مدد مانگی، ایسا کرنا آئین کی غدارانہ خلاف ورزی سمجھاجاتا ہے، جس میں صدر کا مواخذہ کرکے اسے عہدہ سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں یہ مواخذہ خال خال ہے۔ کوئی بھی صدر ا س کے نتیجہ میں بر طرف نہیں ہوا۔ اب صدر کے خلاف ایوانِ زیریں میں آئین شکنی کی تفتیش ہو رہی ہے۔ اور یہ لگ رہا ہے کہ ایوان ِ زیریں واضح شہادتوں کی بنیاد پر ان کے خلاف مواخذے کا مقدمہ قائم کرنےکا فیصل کرے گا۔ اس ایوان میںحزبِ اختلاف کی اکثریت ہے۔ اگر ایسا ہوا تو مقدمہ ایوانِ بالا میں چلے گا جہاں صرف دو تہائی اکثریت ہی صدر کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے۔ لیکن اس وقت اس ایوان میں خود صدر کی جماعت کی بنیادی اکثریت ہے، اور ان کے خلاف دو تہائی اکثریت کا فیصلہ تقریباً نا ممکن ہے۔
تفتیش کے نتیجہ میں ملک میں صدر کو حاصل کردہ قدامت پرستوں کی حمایت اور راسخ ہوتی جاری رہی ہے جو حزبِ اختلاف اور مواخذہ کرنے والو ں کو غدار قرار دیتے ہیں۔ غداری کے ا س طرح کے الزام عام طور پر غیر ترقی یافتہ اور غیر جمہوری ملکوں میں لگتے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ خود امریکی کی جمہوری روایت زوال پذیر ہے جو آخرِ کار عالمی جمہوری نظام کو ہی لے ڈوبی گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں