بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 117

انتخابات اور انتخابی انداز

انتخابات وہ بھی پاکستان کے… ایک عجیب اضطرار، بے چینی، آدم بیزاری، مزاج کی تلخی، غصے میں دماغی فیوز کا ا±ڑنا وغیرہ وہ تمام منفی اوصاف جو انسان کو آدمیت کے درجے سے نیچے گرا دیتے ہیں اپنے ساتھ لاتے ہیں۔خاکسار نے 1970 سے 2018 کے انتخابات میں ایک چیز تواتر سے محسوس کی وہ ہ عدم برداشت ہے۔ سیاسی کارکنوں کی تربیت کا کوئی انتظام سرے سے موجود ہی نہیں اور یہ شاید کبھی تھا بھی نہیں۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے لیڈر پارٹی کے عام کارکنوں کے بغیر صفر ہوتے ہیں۔جہاں بندر بانٹ کا کوئی آسرا ہو وہاں صرف پارٹی کے ” بڑے “ یا ا±ن کے ” جی حضوریے “ ہی جا سکتے یا جاتے ہیں۔جلاﺅ گھیراﺅ، دھرنے، ریلیوں اورجعلی علامتی بھوک ہڑتال، آنسو گیس اور پولیس کی لاٹھیاں کھانے کے موقع پر پارٹی کارکنان کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ سیاسی ورکر خلا میں نہیں رہتے ہمارے اور آپ کے آس پاس ہی ہوتے ہیں۔ اِن کے ذہن میں کیا چل رہا ہوتا ہے ہم نے کبھی جاننے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی البتہ وہ اپنے ”لیڈروں“ کے ذہن سے بہت اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں۔لہٰذا انتخابات کے موقع پر یہ اپنی پارٹی کے کرتے دھرتوں کے ذہن سے سوچتے ہیں۔پھر اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں: 2018 کے عام انتخابات کے موقع پر کراچی میں ایک پارٹی کے لیڈر نے کسی جگہ اپنی تقریر کے بہاﺅ میں دوسری پارٹی والوں کوگدھا کہہ دیا۔
انتخابی گرما گرمی میں ایسا ہو جاتا ہے لیکن آپ کارکنوں کو دیکھئے انہوں نے کسی گدھے کو پکڑ کر ا±س پر ’حریف‘ کا نام لکھ دیا اور اپنی پارٹی کی ریلی میں بے زبان کا مار مار کر برا حال کر دیا۔ کیا اس ریلی میں ایک بھی ” انسان “ موجود نہیں تھا؟ کسی ایک شخص نے بھی آگے بڑھ کر بے زبان پر تشدد کرنے والے پارٹی کارکنان کو اِس انسانیت سوز اقدام کا منع نہیں کیا۔اِن عقل کے اندھوں کی عقل گھاس چرنے گئی ہو گی…اس غریب گدھے کا کسی بھی سیاسی پارٹی سے بھلا کیا تعلق؟ مجال ہے کہ پارٹی کی مقامی قیادت نے کوئی انکوائری کروائی ہو! بہرحال کسی لیڈر پر یقیناً ذمہ داری آتی ہے جو ا±س ریلی کی قیادت کر رہا ہو گا۔ گویا یہ واقعہ ہوا ہی نہیں ! وہ تو بھلا ہو کہ ایک رحم دل شخص کا جِس نے جانوروں پر تشدد کے خلاف معروف این جی او عائشہ چندریگر فاﺅنڈیشن کو اطلاع کی کہ گلشنِ اقبال میں فلاں جگہ ایک بری طرح زخمی گدھا تڑپ رہا ہے۔ فاﺅنڈیشن کی نمائندہ خاتون کا کہنا تھا کہ اس جانور کی حالت بہت خراب تھی۔
کیا پاکستانمیں ’ محکمہ انسدادِ بے رحمیِ جانوراں ‘ اور ا±س سے متعلق قوانین ہیں؟ کیا یہ کام بھی ستار ایدھی ٹرسٹ یا کوئی اور ایسی این جی او ہی کرے؟ ہڈ حرامی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ! اسی طرح بنوں میں دو نوجوانوں نے ایک کتے کو مخالف پارٹی کے پرچم میں لپیٹ کر پستول سے کئی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا اس انسانیت سوز حرکت کو سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کر دیا۔ظاہر ہے پاکستان میں صحیح الدماغ بھی بستے ہیں، بہت سخت ردِ عمل آیا اور پولیس نے 18 گھنٹے بعد ا±س بے زبان کے قاتلو ں کو گرفتار کر لیا۔ اِن میں سے ایک نوجوان کا اقبالی بیان نھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہ شدید ہیجان زدہ، غصہ سے لبریز، برداشت سے عاری، تعلیم سے محروم سیاسی کا رکن بھی آخرکار انسان ہیں یہ صرف سیاسی پارٹیوں میں دیہاڑی دار نہیں ! عزت دار ہیں ! اِس کتے کو مارنے والا نوجوان صرف چھٹی جماعت تک اسکول جا سکا ! ا±س کے ذہن میں ابھی تک غلیل سے چڑیا مارنا ہی مردانہ کھیل ہے۔ کوئی تو ہو جو ایسے سیاسی کارکنوں کی صحیح ذہنی تربیت کر سکے؟ اب ہم مزدوروں، سیاسی کارکنوں کے لئے دوسر ا ” احسان دانش “ کہاں سے لائیں؟ آج کل انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے باتیں اور خبریں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔ حالاں کہ ایسا تمام انتخابات میں ہوتا رہا ہے۔کسی ایک الیکشن میں میرے سامنے بھی ایک کتے کی مار پیٹ ہو رہی تھی میں نے پہل کر کے اِس ظلم کے خلاف بات نہیں بلکہ ہاتھ ا±ٹھایا۔اس لئے کہ میں بھی آپ کی طرح جس ماحول میں رہتا ہوں وہاں ’ بات ‘ سے زیادہ ’ ہاتھ ‘ کی زبان موثر ہوتی ہے۔دو چار افراد میری دیکھا دیکھی میرے ساتھ ہو گئے کچھ دوسری طرف۔کتا رہا ایک طرف میں نے بھی جہاں تک مجھ سے ہوا اس ظلم کے خلاف کیا۔سوال یہ ہے اس شدید گھٹن اور تعفن ذدہ ماحول میں کیا ، کیا جائے! چند تجاویز: سب سے پہلے کارکنوں کی تربیت کے لئے سیاسی پارٹیوں کی قیادت کوئی نظام تشکیل دے۔ دوسرے یہ کہ لیڈران کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر مخالفانہ تقریرکرنا چاہیے۔ ز بان قابو میں رکھنا ، وہ بھی جوشِ خطابت میں، آسان کام نہیں لیکن یہ کارکنوں کی تربیت کا اہم ترین حصہ ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کے کارکن اگر صبر اور برداشت سیکھ لیں تو سمجھیں کہ وہ پارٹی کچھ دنوں میں عوامی مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔ ہم تمام قومی سیاسی پارٹیوں کی مرکزی قیادت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ سب سے اول ترجیح اپنے کارکنوں کی سیاسی تربیت کو دیں۔ سیاسی کارکن میں نظم و ضبط اور برداشت آجائے تو ایسا کارکن پارٹی کا حقیقی ترجمان ہوتا ہے۔ اس سے ملنے جلنے والے غیر محسوس طریقے سے بتدریج متاثر ضرور ہوتے ہیں۔ آج کل تبدیلی آئی ہے کا بہت چرچا ہے۔کوئی مانے یا نہ مانے اگر مندر جہ بالا تجاویز پر عمل کر لیا گیا تو یہ اصل تبدیلی آئے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں