امریکہ میں 14 جون کے مظاہرہ کی اہمیت؟ 57

انقلاب اور پاکستان

جس طرح سے پاکستان میں سابق وزیر اعظم اور عالم اسلام کے سب سے بڑے رہنما عمران خان کی رہائی کے لئے قانونی اور آئینی طریقے سے پچھلے ڈھائی تین سالوں سے کوششیں کی جارہی ہیں اس کا ابھی تک نتیجہ صفر بٹا صفر ہی رہا ہے۔ یقین جانیے کے اس طرح کی کوششیں اگر سو سال تک بھی کی جاتی رہی تو نتیجہ یہ ہی آئے گا کیونکہ پاکستان میں کوئی قانون کی زبان نہیں جانتا جس طرح سے لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے اس طرح سے پاکستان کا سسٹم اور طرز حکمرانی قانون کی زبان کو نہیں سمجھتا وہ صرف اور صرف ڈنڈے کی زبان جانتا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس اپنی بات کو سمجھانے کے لئے میں جرمنی کے مشہور فلسفی نطشے کی چند تاریخی کلمات نقل کرتا ہوں۔
نطشے کا کہنا ہے ”وہ بحث کو پسند نہیں کرتا کیونکہ یہ کمزوری کی علامت ہے“ نطشے کا کہنا ہے کہ بحث طاقت نہیں بلکہ ناتواں کمزور لاغر ہونے کا اقرار یا پھر اعتراف ہے جو عمل کا مالک ہوتا ہے اسے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور جو طاقتور ہوتا ہے وہ قائل نہیں کرتا بلکہ ثابت کرتا ہے، کمزور لوگ ہی بحث سے محبت کرتے ہیں کیونکہ وہ خاموشی سے ڈرتے ہیں جو ان کی حقیقت یعنی کمزوری بے بسی لا چاری ثابت کر دیتی ہے جہاں کہیں بھی ایک ایسی بحث ہو جو ختم نہ ہو وہاں تم حسد کا سایہ اور ناتواں ہونے کو نیکی میں بدلنے کی مایوسانہ کوشش دیکھ سکتے ہو اور بکواس کو عدل کہنے کی جدوجہد
”یوں غلاموں کی اخلاقیات جنم لیتی ہے“
”ہم کمزور ہیں اس لئے تم ظالم ہو!“
جتنی زیادہ بحث ہو گی اتنا ہی کم عمل ہوگا۔

جو تبدیلی کی طاقت نہیں رکھتا وہ اپنی زندگی باتوں میں گزار دیتا ہے
یہ تھا جرمن فلاسفر نطشے کا مکالہ جسے تحریک انصاف والوں کو مشعل راہ بنانا چاہئے ، قانونی جنگ کا دوسرا نام صرف صرف باتیں ہی باتیں یعنی بحث۔۔۔ یہ مہذب معاشروں اور جمہوری ملکوں کی زبان ہے وہاں کے لوگ تو یہ زبان نہ صرف جانتے ہیں بلکہ عبادت جان کر اس کا تہہ دل سے احترام بھی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز پر جس طرح کے جانوروں کی حکمرانوی ہے جس طرح کے جانوریت کا سسٹم اس وقت چل رہا ہے وہاں قانونی لوازمات دلائل اور بحث کی کوئی گنجائش نہیں اسی لئے جرمن فلاسفر نطشے کے مطابق بحث کرنا کمزور اور بے بس لوگوں کا شیوہ ہے۔ اس سے کوئی عمل وجود میں نہیں آتا، یہ ہی وجہ ہے کہ عمران خان پچھلے کوئی تین سالوں سے جھوٹے اور بے بنیاد مقدموں میں قید ہیں، چور کو چور، ڈاکو کو ڈاکو اور غدار کو غدار کہنا ہی ان کا جرم ہے اور ان ہی چوروں، ڈاکوﺅں اور غداروں نے مل کر ہی انہیں جھوٹے مقدمات کے ذریعے انہیں قید میں ڈالا ہوا ہے جہاں کی عدالتیں پولیس سب کی سب ان ہی چوروں ڈاکوﺅں اور غداروں کے اس ٹرائیکا کے کنٹرول میں ہے اس وجہ سے قانونی بحث اگر سو سال تک میں کی جاتی رہے تو اس کا حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہو گا کیونکہ سب کے سب بشمول صحافت کے کمپرومائیز ہو چکے ہیں اب اوپر والے کے بعد پاکستانی عوام کے اتحاد اور یکجہتی پر ہی عمران خان کی رہائی کا دارومدار ہے۔ پاکستانی سسٹم تو ڈھٹائی، بے شرمی اور لاقانونیت کی ساری حدیں پار کر چکا ہے اب صرف بنگلہ دیش اور سری لنکا کے طرز کے عوامی سیلاب کے ذریعے ہی اس ظالمانہ نظام سے نجات ممکن ہے ورنہ یہ دونمبری جمہوریت کے ذریعے اپنے من پسند قانون بنا کر نظر نہ آنے والی بھیڑیوں میں نظام انصاف کے بعد ایک ایک ادارے کو جکڑتے جکڑتے آخر میں پورے 25 کروڑ عوام کو ایک بار پھر غلام بنا لیں گے اسی لئے اپنی حقیقی آزادی کے لئے عوام کو سروں پر کفن باندھ کر اب گھروں سے نکلنا ہی ہو گا ورنہ وہ ان ظالموں کے ہاتھوں اپنی آخری امید عمران خان کھو دیں گے۔ عمران خان کے خلاف اس انقلاب میں ہی پاکستان کا حقیقی آزادی حقیقی سلامتی اور عوام کی حقیقی فلاح و بہبود مضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں