سینیٹ کے انتخابات کا شور عروج پر ہے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح ممبران کی خرید و فروخت کا سلسلہ جاری ہے۔ سینیٹ الیکشن کا موسم آتے ہی مختلف پارٹیز نے اپنے ممبران کو مضبوط کرنا شروع کردیا ہے۔ حکومتی جماعت کی پوزیشن پر بھی سوالیہ نشان اس لئے ہے کہ گزشتہ ہفتہ چند ویڈیوز منظر عام پر آئیں جس میں سابقہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے ایم پیز کو پیسے لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بظاہر برہمی کا اظہار کیا ہے اور دھمکی بھی دی ہے کہ پی ٹی آئی کے ممبران نے پیسے لے کر بکنے کی کوشش کی تو انہیں پارٹی سے نکال دیا جائے گا اور انہوں نے اس سلسلہ میں کچھ عملی اقدامات بھی کئے مگر دوسری جانب مقتدر حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان بخوبی اس بات سے آگاہ ہیں کہ سابقہ سینیٹ کے الیکشن میں ان کے کن ممبران نے رقم وصول کرکے اپنی وفاداریاں تبدیل کی تھیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں نے بھی کس طرح پیسہ کے ذریعہ سینیٹ میں کامیابی کے لئے ممبران کو خریدا تھا۔
عام تاثر یہی ہے کہ عمران خان جانتے بہت کچھ ہیں مگر شرافت اور ایمانداری کا لیبل ماتھے پر سجائے معصوم بن جاتے ہیں جیسے کچھ جانتے ہی نہیں مگر لوگ آہستہ آہستہ پی ٹی آئی کے سحر سے باہر نکلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ نہ تو فوج کے پاس کوئی متبادل ہے اور نہ ہی عوام کے سامنے کوئی ایسا لیڈر ہے جو ان کے مسائل کے حل کے لئے صدق دل سے کوشش کرے۔ عوام سابقہ جماعتوں سے بددل ہو کر ہی عمران خان کی جانب بڑھی تھی مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت اپنے وعدوں کو وفا نہ کرسکی۔ یوں اس بات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سینیٹ کے الیکشن کے بعد شاید حکومت تبدیل ہو جائے اور کوئی اور متبادل سامنے آ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کے لہجہ میں بھی نرمی دکھائی دیتی ہے اور لانگ مارچ اور دھرنا کا معاملہ سرد پڑتا دکھائی دے رہا ہے۔ فوج کے اس بیان کے بعد کہ اس کا سیاست اور سینیٹ کے الیکشن میں کوئی کردار نہ ہوگا۔ حکومت کچھ پریشان بھی دکھائی دیتی ہے۔ اوپن بیلٹ نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کی سینیٹ کے الیکشن میں کامیابی مشکل نظر آتی ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی کی صورت میں سیاست کے میدان کے بڑے کھلاڑی خصوصاً آصف علی زرداری کے سامنے عمران خان کا کامیاب ہونا مشکل نہیں بلکہ ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
332