بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 547

اونٹ رے اونٹ تری کون سی کل سیدھی

کئی مہینہ بیماری کا راگ الاپنے کے بعد بالاخر سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی 8 ہفتہ کی درخواست ضمانت میں دو ہفتہ کم کرکے انہیں 6 ہفتہ کی ضمانت دے دی جو کہ خودبخود 6 ہفتوں کی معیاد ختم ہوتے ہی کینسل ہو جائے گی اور نواز شریف دوبارہ گرفتار کر لئے جائیں گے۔ عدالت عالیہ کا فیصلہ ہے کہ نہ تو ان کی ضمانت میں توسیع ہو گی اور نہ ہی وہ ملک سے باہر جا سکیں گے۔ انہیں سہولت دی گئی ہے کہ ملک میں رہتے ہوئے وہ اپنی مرضی سے جہاں اور جس سے چاہیں علاج کراسکتے ہیں۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ نواز شریف کی ضمانت کے بعد مسلم لیگ نواز کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ 6 ہفتہ کے بعد کوئی اور راستہ نکل آگئے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف کو سزا کرپشن اور منی لانڈرنگ کی نہیں بلکہ سی پیک منصوبہ، ایٹمی دھماکہ اور ملکی معیشت کو مضبوط کرنے کی ملی ہے۔مسلم لیگی رہنماﺅں کا یہ بیان بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اب سپریم کورٹ میں ثاقب نثار نہیں ہے۔ اس لئے بہتر فیصلے ہو رہے ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کینیڈا کے دورے پر ہیں اور یہاں دعوتیں اُڑا رہے ہیں اور نجی محفلوں میں فرما رہے ہیں کہ سپریم کورٹ ان کے دیئے گئے نکات اور ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔ وہ خود تو دنیا بھر کے اُن پاکستانیوں سے چندے وصول کرتے پھر رہے ہیں جنہیں انہوں نے آج تک حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ نہیں دیا۔ اُن پر شک کا اظہار کیا، کسی قادیانی کو اہم عہدے پر فائز کیا گیا تو کوئی سوموٹو نہیں لیا بلکہ چپ سادھ لی۔ یہ کہنے کی جرات نہیں کی کہ قائد اعظم کے پاکستان میں یہ سب ناجائز ہے۔ مگر وہی ڈنڈا اُٹھایا جہاں کی اجازت ملی۔ کینیڈا میں نہایت ڈھٹائی سے احمدی مسلم جماعت سے ایک لاکھ ڈالر کا چیک بشکریہ وصول کیا۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ہماری عدالتوں نے آج تک نظریہ ضرورت کو مدنظر رکھا۔ افتخار چوہدری کے بعد تو صورتحال مزید خراب ہوئی کہ ہماری عدالتوں نے کیمرے کے سامنے ایکٹنگ کرکے اپنی عدالتوں کی ریٹنگ بڑھائی اور قوم کے ہیرو بننے کی کوشش کی۔ کوئی ریکوڈک کے منصوبوں میں گھس گیا تو کسی نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی بقاءکے لئے ڈیم منصوبے شروع کرلئے۔ جن سے جمع شدہ رقم کے نتیجہ میں دنیا بھر کی سیر، بہترین ہوٹلوں میں قیام، اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کا علم بلند کرکے پاکستانیوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا گیا۔ ملک کے عدالتی اداکار، سیاسی اداکار، فوجی اداکار اور افسری اداکار اپنے اپنے دھندوں میں مصروف ہیں۔ عوام کبھی ٹرین مارچ اور کبھی پنجاب کارڈ کے ڈراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ تو کبھی انہیں کرکٹ کا بخار چڑھا دیا جاتا ہے۔ رہی سہی کسر جنگ کا بگل بجا کر پوری کردی جاتی ہے۔ یوں ملک چل رہا ہے اور شاید یونہی چلتا رہے گا۔ ہر آدمی اپنا چورن بیچتا رہے گا کہ یہی ہمارے ملک کا المیہ ہے کہ ہمارے ہم وطن کبھی اسلام، کبھی پاکستان، کبھی ذات برادری، کبھی فرقہ واریت، کبھی اقربا پروری اور کبھی لسانیت کے چورن خریدتے رہیں گے۔ اور ہمیں لوٹنے کھسوٹنے والے، ہماری عزتوں اور ہماری حرمت سے یونہی کھیلتے رہیں گے۔ نہ ہی راﺅ انوار جیسے درندے عدالتوں سے سزا پائیں گے۔ نہ ہی ایان علی کو کوئی چھیڑ سکے گا۔ نہ بھٹو کبھی مرے گا اور نہ ہی تھرپارکر کے لوگ کبھی صاف پانی دیکھ پائیں گے اور ویسے بھی ہمیں بتایا گیا ہے کہ
موت کا ایک دن مقرر ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں