پاکستانی سیاست بالخصوص اور صحافت بالعموم روز بروز تلخ ہوتی جارہی ہے اور نہ جانے کیوں اس طرح کا تاثر مل رہا ہے کہ دونوں کی ڈوریں کسی ایک ہی جگہ سے ہلائی جارہی ہیں۔ دونوں باہمی مشاورت سے کسی ایک ہی اسکرپٹ پر مل کر کام کررہے ہیں، دونوں کا نشانہ عمران خان اور اس کی حکومت کو گرانا ہے۔ دونوں ہی ملک میں آئی ہوئی موجودہ مہنگائی سمیت ہر بُرائی کا ذمہ دار کلی طور پر عمران خان اور اس کی نوزائیدہ حکومت کو ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ وہ ایجنڈا ہے جس پر ملک کی صحافت اور تمام اپوزیشن پارٹیاں مل کر کام کررہی ہیں۔ اس ایجنڈے میں عمران خان کی حکومت کے علاوہ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملکی اداروں کو نشانہ بنانا بھی شامل ہے۔ جس کا مقصد صرف اور صرف احتساب کی شکل میں اپنی جانب بڑھنے والی موت کو روکنا ہے۔اس موت کو روکنے کے لئے کوئی ”جمہوریت کو خطرہ ہے“ کا راگ الاپ رہا ہے تو کوئی ”آزادیءاظہار رائے کو خطرہ ہے“ کا دھتکارا ہوا گیت گا رہا ہے۔ وہ ان نعروں کے ذریعے سے ایک بار پھر ملکی عوام کو بے وقوف بنا کر اپنے گناہوں اور کالے کرتوتوں کو اس میں ڈھانپنے کی کوشش کررہے ہیں۔ غرض دوسروں سے سوال پوچھنے والے خود کو ہر طرح کے سوالات پوچھے جانے سے ماروا خےال کرنے کی خطرناک بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں اور ایسا کرنے کو آئینی حق سے زیادہ اپنی رسوائی خیال کرتے ہیں۔ یہ انداز ان نامور اینکرز اور صحافیوں کا ہے جو روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر دوسروں کو اخلاقیات کا بھاشن دیتے ذرا نہیں تھکتے لیکن خود سے سوالات پوچھنے کو وہ گناہ اور جرم خیال کرتے ہیں۔ یہی حال ملک کی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماﺅں کا ہے۔ کوئی ایک بھی احتساب کا سامنا کرنے کو تیار نہیں، ان کا یہ انداز یہ طرز عمل خود ان کی کرپشن کے خلاف ایک طرح کا ناقابل تردید ثبوت بنتا جارہا ہے۔ سیاستدانوں کی طرح سے صحافت بھی ملکی عوام کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا کر دوڑا رہی ہے۔ ہر ایک کا انداز فیصلہ کن ہو گیا ہے۔
سابق وزیر اعظم مسٹر نواز شریف کی سزا یافتہ مجرم بیٹی مریم صفدر کے ایک جج کے خلاف ویڈیو لیگ کی شکل میں چھوڑے ہوئے شوشے کو ملکی میڈیا نے من و عن بلا کسی تصدیق کے فیصلہ کن انداز میں نہ صرف شائع کردیا بلکہ اعلیٰ عدلیہ سے سوالات بھی کر ڈالے، حالانکہ میڈیا کو انداز دنیا بھر میں کہیں بھی فیصلہ کن اور عدلیہ والا نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ دونوں جانب کے بیانات چھاپ کر فیصلہ پڑھنے اور دیکھنے والوں پر چھوڑ دیتا ہے مگر پاکستان میں صحافی اور اینکرز خود ہی وکیل کے بعد جج بھی بن جاتے ہیں اور اس طرح سے ملکی عوام کو وہی تصویر دکھانا چاہتے ہیں جو وہ چاہتے ہیں۔ وہ نہیں دکھاتے جو زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بعض اوقات شرمندگی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے بعد وضاحتوں سے کام چلاتے ہیں۔ ملکی میڈیا کے ان کرتوتں کو سوشل میڈیا نے نہ صرف بے نقاب کردیا بلکہ ملکی عوام کو اصل صورتحال سے آگاہ کرنے میں بھی اس نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک کے نامور صحافی اور ٹی وی اینکرز تک اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال رکھنے کے لئے سوشل میڈیا کا سہارا لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
ملکی عوام بہت باشعور ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں اور ملکی صحافت کے مشترکہ گمراہ کن کاوشوں کے باوجود ملکی عوام میں وہ ہیجان برپا نہ کرسکے جس کی وہ آس لگائے بیٹھے تھے۔ ملکی عوام کی دلچسپی مہنگائی کے خاتمے سے بھی زیادہ اس کے ذمہ داروں کے خلاف نیب کے ہاتھوں پکڑے جانے اور اس کے بعد انہیں عبرتناک سزائیں دلوانے میں ہے اور ملکی عوام اب سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کے بھی منتظر ہیں۔ جو سارا سارا سال انہیں گمراہ کن اطلاعات فراہم کرکے لٹیرے حکمرانوں کو تحفظ فراہم کرتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملکی عوام کو اس طرح کے جعلی ویڈیو ٹیپ کے آنے پر کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ جس طرح سے نیب کے چیئرمین کے خلاف آنے والا جعلی ٹیب اپنی موت آپ مرگیا۔ یہی حال جج کے خلاف آنے والے اس نئے ٹیپ کا بھی ہو گا۔
وزیر اعظم عمران کو چاہئے کہ وہ بڑھتی ہوئی غیر ضروری مہنگائی کی روک تھام کے لئے مزید اقدامات کریں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے ان تمام عناصر کے خلاف ایک سخت ترین آپریشن شروع کروائیں جو روزمرہ کے اشیا کی قیمتوں میں من مانے دام وصول کرکے غریبوں کی زندگی کو جہنم بنا رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وزارت اطلاعات پر خاص توجہ دیں اور ملکی میڈیا کے جائز شکایات کا ازالہ کریں۔ اس لئے کہ میڈیا کسی ایک میڈیا ہاﺅس یا چند ٹی وی اینکرز اور کالمسٹ کا نام نہیں اس میں لاکھوں دوسرے ورکنگ جرنلسٹ بھی شامل ہیں۔ جو مہنگائی کی اس نئی لہر سے بہت زیادہ متاثر ہو رہے ہیں جب کہ جن ٹی وی اینکرز اور صحافیوں نے حکومت کے خلاف پوزیشن لی ہوئی ہے وہ مالی لحاظ سے بہت زیادہ مستحکم ہیں کیونکہ انہیں نیب زدہ سیاستدانوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس لئے کہ وہ صحافت کی آڑ میں ان کی وکالت کرکے تفتیش پر اثر انداز ہونے کی صورت میں مجرمانہ غفلت و لاپرواہی کے مرتکب ہو رہے ہیں اس لئے حکومت کو چاہئے کہ میڈیا کے معاملہ میں میانہ روی کا مظاہرہ کرے اور میڈیا کے حقیقی اور ذمہ دار صحافت کے علمبردار رہنماﺅں سے ٹیبل ٹاک کریں اور ان کے جائز مسائل حال کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔
