عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 153

اپوزیشن کا کھیل ختم؟

یہ بات تو روز روشن کی طرح سے عیاں ہے کہ پاکستان میں یہ سیاسی بحران عالمی سازش کا نتیجہ ہے۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان جاری اس جنگ کے اثرات پاکستان کے سیاسی نظام پر بھی پڑ چکے ہیں۔ ایک بہت بڑی طاقت کسی بھی صورت میں عمران خان کو مزید وزیر اعظم کی حیثیت سے دیکھنے کو تیار نہیں؟ جس کے بعد ہی پاکستان کے سیاسی بیماروں میں جان پڑ گئی ہے اور خود اپنا سودا کرنے کے بعد جمہوریت کے دعویدار دوسرے بکنے کے خواہش مند سیاستدانوں کو خریدنے کی صورت میں بیرونی آقاﺅں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے عمران خان کے پیروں تلے سے زمین کھسکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایک سیاسی دنگا فساد چل رہا ہے، 1977ءکی سیاسی تاریخ دہرائی جارہی ہے، اس وقت کے نوستارے بھی ڈالروں کی گرمی سے چمک رہے تھے اور ایک منتخب عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اسی طرح سے تحریک چلا رہے تھے جس طرح سے اس وقت ملک کی ساری دھتکاری ہوئی پارٹیاں مل کر عمران خان کے حکومت پر شب خون مارنے کی تیاریاں کررہی ہیں بلکہ وہ تحریک عدم اعتماد اسمبلی میں پیش کرکے اس کی شروعات کر چکے ہیں مگر ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہوتا ہے جن پتوں پر اپوزیشن میں شامل سیاسی پنڈتوں کو ناز تھا۔ ان ہی پتوں نے جب اپنا رنگ دکھا کر انہیں ہوا دینے کا سلسلہ شروع کردیا تو ان کے چاروں طبق ہی روشن ہو گئے اور اب انہیں دن میں بھی تارے نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور اب انہیں احساس ہو گیا ہے کہ ان کے ساتھ کسی نے ہاتھ کردیا ہے وہ اپنی بے وقوفی یا خوش فہمی میں اتنے آگے بڑھ گئے ہیں کہ اب ان کے پاس سوائے رسوائی اور شرمندگی کے اور کوئی راستہ ہی واپسی کا نہیں بچا، انہیں معلوم ہے کہ وہ جس مشن پر نکلے تھے وہ مکمل نہیں کر پائیں گے، اینٹ سے اینٹ بجانے والا لگتا ہے دوبارہ اینٹوں کی تلاش میں ادھر ادھر ہو جائے گا۔
مولانا حلوے اور ڈیزل کے پرمٹوں کی مالا بنا کر اسے چپنا شروع کردیں گے اور پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا مال نکالنے کا سیاسی نعرہ لگانے والے شوباز شریف چیری بلاسم کا کاروبار دوبارہ سے شروع کردیں گے۔ غرض پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی عالمی سازش چائے کی پیالی میں اٹھنے والے طوفان ہی ثابت ہوئی اس لئے کہ اب یہ 1977ءوالا دور نہیں۔ پاکستان کے عوام بہت باشعور ہو چکے ہیں۔ میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے سحر سے باہر نکل آچکے ہیں۔ سوشل میڈیا تازہ ترین اور سچی اطلاعات کے حوالے سے بکاﺅ مال مین اسٹریم میڈیا پر سبق تلے جا چکا ہے اس وجہ سے سیاستدانوں کسی کا اثر و رسوخ اب ملکی عوام پر کم سے کم ہوتا جارہا ہے۔ ملکی عوام نہ تو سیاستدانوں کی باتوں میں آرہے ہیں اور نہ ہی ان کے میڈیا کے گمراہ کن پروپیگنڈہ کا ان پر کوئی اثر ہو رہا ہے جس کا زندہ ثبوت عمران خان کا 27 مارچ والا تاریخ ساز جلسہ ہے ایک اس طرح کا جلسہ کے جس نے سیاستدانوں کے ہوش کے ناخن اڑا دیئے ہیں۔ اور سب سے زیادہ اہم ترین جو
صورتحال سامنے آئی ہے وہ مسلم لیگ ق کا عمران خان کی حکومت کی حمایت کا اعلان کرنا ہے یہ ایک ایسی تبدیلی ہے کہ جس نے اپوزیشن کے غبارے میں سے ہوا نکال دی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کے لئے اس تبدیلی میں ”شٹ اپ“ کال بھی ہے اور ایک بہت بڑا پیغام بھی ہے ان کے لئے سوچنے اور غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنوانے کے لئے تو اپوزیشن بھی تیار ہو چکی تھی پر آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ وہی وزیر اعلیٰ پنجاب والی حکومتی پیش کش چوہدری برادران نے قبول کرکے اپوزیشن کے ناﺅ میں شگاف ڈال دیا ہے جس کی وجہ سے اب اس ناﺅ کا منزل تک پہنچنا دیوانے کا خواب ہے اب اسے ڈوبنے یا غرق ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا، میں پھر کہتا ہوں کہ سمجھنے والوں کو اس میں بہت بڑا اشارہ ہے، مجھے یقین ہے کہ اپوزیشن والوں کو ساری حقیقت سمجھ میں آگئی ہو گی کہ ان کے ساتھ کسی نے ہاتھ کرلیا ہے اور رسوائی اب ان کا مقدر بن چکی ہے ان کے دن اب بدلتے پاکستان کی سیاست میں ختمہو گئے ہیں کیونکہ ملکی عوام بہت باشعور ہو چکی ہے یہ ہی پاکستان کی سلامتی کے لئے ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں