تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ 646

اژدھے اور ہم

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبعیت بھی
مولانا حسرت موہانی تحریک آزادی کے بہت بڑے سپاہی تھے ان کی خدمات تحریک پاکسان کے حوالے سے بے بہا ہیں۔ پاکستان کی آزادی کے حوالے سے ان کا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ قیام پاکستان کے بعد اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے پاکستان کی طرف ہجرت کا عمل شروع کیا اور ایک بہت بڑی تعداد پاکستان کے مختلف شہروں می جا کر بسنا شروع ہوگئی۔ مولانا حسرت موہانی نے پاکستان میں قیام کرنے کے بجائے ہندوستان میں ہی رہائش رکھنے کا ارادہ کرلیا۔ مولانا حسرت موہانی سے کسی نے پوچھا کہ آپ پاکستان کیوں نہیں گئے؟ ایک حسرت بھرے لہجے میں ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا ”دونوں جگہ جنونیت کا دور دورہ ہے اور اپنی تو ہر دو جگہ جان کو خطرہ ہے، یہاں رہے تو جانے کب کوئی ہندو مذہبی ہمیں انتہا پسند کہہ کر مار ڈالے گا یہی سب کچھ پاکستان میں کسی جوشیلے مسلمانوں کے ہاتھ ہو سکتا کہ مجھے گستاخ کافر کہہ کر مار ڈالے“۔ مولانا نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بھارت میں رہ کر مسلمان کی موت مرنا بہتر ہے، پاکستان میں رہ کر کافر کی موت مرنے سے۔ مولانا نے یہ بات قیام پاکستان کے فوراً بعد 1947ءمیں کہی، یہ بات کوئی مفکر دانشور مدبر ہی اتنی دور رس نگاہوں سے آنے والے مستقبل کو بہت پہلے دیکھ لیتا ہے اور آنے والے وقت کے بارے میں پہلے سے ہی لوگوں کو آگاہی دے دیتا ہے۔ مولانا حسرت موہانی پاکستان آکر اپنی خدمات کے حوالے سے ایک اعلیٰ درجہ پر فائز ہوسکتے تھے لیکن انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں جس طرح کے خدشات کا اظہار کیا، موجودہ دور میں وہ من و عن ہمارے سامنے آرہے ہیں، کہتے ہیں سانپ کے بچے پالو گے تو وہ اژدھے بن کر تمہیں ہی دبوچیں گے یا ببول کے بیچ بوﺅ گے تو درخت بن کر ان کے کانٹے خود کو ہی چبھیں گے۔
یہی حال ہمارے وطن کا ہے جہاں شروع میں ہی ان طریقوں کو اختیار کیا جہاں پر سانپوں کو قوم کا دودھ ہی نہیں خون پلا کر پالا گیا۔ سپیرے یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ سانپ ان کو چھوڑ کر مخالف ہی کو نقصان پہنچائیں گے جب کہ اس کے برخلاف انہوں نے خود ان کو ہی نقصان پہنچانا شروع کردیا جو ہتھیار انہوں نے مخالفین کے لئے تیار کئے تھے وہ خود ان کے اپنے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔
اب ہمارے وطن جو کچھ بھی وقوع پذیر ہو رہا ہے ایسا ہونا تھا ایسے ہی کاموں میں۔ ان عناصر کو یہ ہی کچھ کرنا تھا ان کی ساخت ہی ایسی رکھی گئی تھی کہ وہ یہ ہی کچھ کریں گے۔ اس گروہ نے مذہب کا نام لے کر معصوم افراد کی جان، مال، املاک کو نقصان پہنچایا انہیں تو یہ ہی کرنا تھا، یہ انتہا پسندی صرف ان ہی عناصر میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر طبقے میں پیدا کی گئی ہے۔ ہمارے وطن کے معصوم عام انسانوں کو بہت جلد اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ان کو کسی نے سکھایا ان کو اس راہ پر کس نے لگایا۔ ان عام لوگوں کو انسان سے جانور کس نے بنایا۔ سب کو ان کے ذمہ داروں کا تعین کرکے اس کے سدباب کے لئے لائحہ عمل تباہ کرنا ہوگا۔ اس کے لئے ملکی اداروں کو یک سو ہو کر ایک لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ جس طرح سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد تمام قوم نے یک سو ہو کر قومی ایکشن پلان بنایا اب اس ہی طرح کے ایکشن پروگرام بنا کر ان پر عمل پیرا ہونے کا وقت ہے یہ ایک آخری موقع ہے اس نظام کو تبدیل کرنے کا۔
تیری نظر پہ چھوڑا ہے فیصلہ دِل کا
آدمی بن کے رہوں یا فرشتہ کی طرح
سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے موقع پر دُشمن چھپا ہوا تھا۔ دُشمن کے ایجنٹ ہماری صفوں میں چھپے ہوئے تھے اس موقع پر کچھ ادارے حکومت کے ساتھ تھے، کچھ مخالف جماعتیں بھی حکومت کے ساتھ تھیں مگر اس موقع پر اب دُشمن سامنے کھل کر مختلف اداروں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکار رہا، ہر ادارے کا نام لے کر چیلنج کررہا ہے۔ حکومت اور اداروں کے خلاف کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کررہا ہے۔ عوام کی املاک کو تباہ و برباد کررہا ہے ان کے راستوں میں رکاوٹیں ڈال کر ان کو روزمرہ کی زندگی گزارنا دوبھر کررہا ہے عوام کا سلون برباد کرکے سڑکوں پر موت کا رقص کروا کر قانون کو اپنی انگلیوں پر نچا رہا ہے۔ پوری سول سوسائٹی کو یرغمال بنا کر اپنے مقاصد میں کامیابی کے دعویٰ کررہا ہے یہی وجہ ہے اس موقع پر ملکی تمام شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کا ریاست سے ایک ہی مطالبہ ہے کہ اب بہت ہو گیا اب وقت آگیا کہ ان عناصر کے خلاف سخت ترین ایکشن لے کر ان کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس موقع پر حکومت وقت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ٹال مٹول سے کام لینا چھوڑ دے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ تقریباً تمام مخالف ان کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کررہی ہے۔ ملک کی تقریباً تمام بڑی جماعتوں نے حکومت کو یقین دلایا کہ وہ ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لئے ان کے ساتھ کھڑی ہیں اور ان کے اقدامات کی مکمل تائید کرنے میں کسی قسم کے تعمل کی روادار نہیں جب کہ پچھلے ادوار میں وہ کسی ایک موقف کو اختیار کرنے میں ناکام ثابت ہوئی تھیں۔ جب کہ موجودہ حالات میں تمام سیاسی قوتیں متحد ہو کر حکومت کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس وقت سول سوسائٹی بھی یک زبان ہو کر حکومت سے یہ ہی مطالبہ کررہی ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع کرنے کے بجائے ان عناصر کے خلاف سخت لائحہ عمل اختیار کرکے ان کو ریاست کے تابع بنائے۔ آج معاشرے کے تمام طبقات مجبور ہو کر حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ ان کا سکون اور اطمینان ضائع کرنے کے بجائے ان کا اعتماد بحال کرے اور ان عناصر کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے۔
اس وقت حکومت کی عدلیہ کو بھی شدید ضرورت اور عدلیہ کی حکومت کو، دونوں کو ہی ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہے اس موقع پر حکومت اور عدلیہ بھی ایک پیج پر نظر آتے ہیں یہ بھی حکومت کی ایک اہم سپورٹ ہے آج حکومت کے ہر طرح کے اقدامات کی عدلیہ کی طرف سے مکمل تائید حاصل ہو جائے گی۔ موجودہ حکومت کے لئے یہ ایک غیبی مدد ہے جو اس سے پہلے کسی حکومت کو حاصل نہیں تھی آج کی حکومت کے اقدامات عدلیہ کی ایک طرح سے مدد کا باعث ہوں گے کیونکہ ان عناصر نے حکومت کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے بارے میں ایسی نازیبا زبان استعمال کی ہے جو اس سے پہلے کسی کو ادا کرنے کی جرات تک نہیں تھی انہوں نے عدلیہ کے ججوں کو قتل کرنے کا نام نہاد فتویٰ کا برملا اعلان کرکے عدلیہ کی بھی بڑی توہین کی ہے ان کا تدارک کرنا بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور حکومت کو اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے ان عناصر کے خلاف بھرپور اقدامات اٹھانے کی شدید ضرورت ہے۔ موجودہ صورت حال میں سیکیورٹی کے ادارے بھی ان کی مدد کے لئے تیار کھڑے ہیں کیونکہ ان عناصر نے ان کے خلاف ایک طرح کی بغاوت کا اعلان بھرے مجمع میں کیا اور فوجی افسران کو ان کی اعلیٰ قیادت کے خلاف بغاوت پر اکسایا کیونکہ فوج نے تو صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود سے کارروائی کرنے کی بجائے حکومت کی طرف اس کام کو چھوڑ دیا اگر حکومت نے کارروائی کا بھرپور ارادہ کرلیا تو فوج بھی ان کی بھرپور مدد کرنے کے لئے تیار نظر آتی ہے۔ پہلی دفعہ ملک کے تمام طبقات حکومت کی بھرپور مدد کرنے کے لئے تیار ہیں اب حکومت کو آگے بڑھ کر اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا ہوا اور ان اژدھوں کے سر کچل کر ان کا مکمل سدباب کرنا ہوگا۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے کہ اب یہ موقع ضائع کیا کیا یا کسی مصلحت سے کام لیا گیا۔ تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اب وقت ہے، ابھی یا کبھی نہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں