وزیر اعظم کہتے رہ گئے کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا اور پھر سب کو چھوڑ دیا یا پھر چھوڑنا پڑ گیا۔ شاید عمران خان بھول گئے تھے کہ وہ وزیر اعظم بنے نہیں بلکہ بنائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چہرہ تو عمران خان کا دکھایا جاتا رہا مگر فیصلے کہیں اور ہوتے رہے۔ پہلا موقع ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان قربت رہی اور کہا گیا کہ فوج اور سویلین ایک صفحہ پر ہیں۔ مگر پھر عمران خان کے یہ کہنے کے باوجود کے کسی کو نہیں چھوڑوں گا سب کو کیوں چھوڑا گیا اور کس نے چھوڑ دیا؟ کیا عدالتیں اور اپوزیشن ایک صفحہ پر ہیں اور فوج اور عمران خان ایک صفحہ پر نہیں، بلکہ کہیں دال میں کالا ضرور ہے۔ لگتا ہے کہ فوج میں بھی کچھ عناصر ایسے ہیں جو ”صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں“۔ کہیں آنے والے وقت میں فوج تو تقسیم نہیں ہو رہی؟ صورتحال نہایت گمبھیر ہے، کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل کیا ہوگا؟ آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا معاملہ بھی بحث طلب ہے اور حکومت مخالف جماعتیں اس معاملہ میں کوئی تعاون کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔ عدالت سے فیصلے بھی کسی نہ کسی کے اشارے پر ہو رہے ہیں، کوئی تو ہے جو اس ملک کی بساط کو لپیٹنے کے درپہ دکھائی دیتا ہے۔ وکلاءکا ہسپتال پر حملہ، اداروں کی باہمی جنگ، میڈیا کی معنی خیز خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔
نواز شریف ملک سے باہر ہیں اور لندن میں بیٹھے ساسی جوڑ توڑ کررہے ہیں۔ آصف علی زرداری بھی باہر آچکے ہیں اور ان کی ہمشیرہ اور خورشید شاہ بھی رہائی پا چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام کے تمام ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں اور ایک ہی تھالی کے چٹہ بٹہ ہیں۔ جب ایک حمام میں سب ننگے ہیں تو سزا کون دے گا اور کسے دے گا۔ یہاں تو فیصلہ سنانے والے بھی کالے اور فیصلہ کا شکار ہونے والے بھی لٹیرے۔ معصوم عوام کس قدر بری طرح پھنس چکی ہے۔ ان مفاد پرستوں میں۔ کہیں فوج کا ظلم و جبر، کہیں پولیس کی دہشت گردی، کہیں وکلاءگردی تو کہیں عدالتوں کے مضحکہ خیز فیصلہ، یہ تو اندرون ملک کا حال ہے۔ بیرونی تعلقات پر نظر ڈالیں تو وزیر اعظم جنہوں نے مہاتیر محمد اور طیب اردگان کو چڑھایا کہ OIC سے ہم کچھ حاصل نہیں کر سکتے، ہمیں اپنا بلاک بنانا ہوگا۔ اور جب مہاتیر محمد نے قدم اٹھا دیئے تو پھر سعودی عرب کے شہزادے بیچ میں آگئے۔ ہمارے وزیر اعظم بھول گئے کہ مہاتیر محمد ہی تھے جنہوں نے کشمیر کے موقف کی حمایت کی اور پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسی بنیاد پر انہوں نے بھارت سے کاروباری تعلقات بھی منقطع کرلئے مگر ترکی اور سعودی عرب کی کشیدگی کے سبب سعودی عرب جس نے پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کی حمایت کی۔ اور مودی کو خوش آمدید کہا۔ عرب ممالک میں مندر منوائے اور ہندوﺅں کے ساتھ مل کر بتوں کی پرستش کی۔ ایک بار پھر پاکستان کو ترکی اور ملائیشیا سے بڑھتے ہوئے تعلقات میں رکاوٹ بن گئے۔ پاکستان کی فارن پالیسی کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے اور موجودہ صورتحال کے نہایت منفی اثرات پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ نہ جانے حکومت کیسے ان اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے عہدہ برا ہو سکے گی؟
