مشہور تھا کہ سلطنت برطانیہ میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سورج تو غروب ہونے لگا مگر برطانیہ کے شاہی خاندان سے انسیت کا چاند آج تک گہنایا نہیں۔ برطانیہ میں فی الوقت ملکہ الزبتھ دوئم کے عہد حکومت کے 70 سال مکمل ہونے کے جشن سے منسلک تقریبات جاری ہیں، یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر برطانوی رنگ و نسل اور زبان و مذہب کی تفریق سے بے نیاز اس خوشی میں شریک ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر جو مناظر دکھائے جارہے ہیں وہ غمازی کررہے ہیں کہ برطانوی اپنی ملکہ سے محبت کرتے ہیں اور ان تمام 70 سالوں میں تمام اونچ نیچ کے باوجود شاہی خاندان نے عوام میں اپنی مقبولیت قائم رکھی ہے۔ عالمی طور پر بھی ہر ایک کا اس شاہی خاندان سے ایک اچھوتا سا رشتہ رہا ہے، ایک انوکھے سے رومانس کا احساس۔ ہندوستان اور پاکستان کے کئی پرانے گھروں میں آج بھی ملکہ الزبتھ دوئم کی شادی اور تاجپوشی کی تصاویر، اخبارات کے تراشے البم کی صورت میں لائبریریوں میں موجود ہیں۔ دنیا کا شاید ہی کوئی اور شاہی خاندان ہو جس کی خبریں اس قدر عالمی ابلاغ کی زینت بنتی ہوں۔ صدیوں سے انگلستان خوابوں کا ایک جزیرہ رہا۔ ٹریفلیگر اسکوائر سے لے کر بکھنگم پلس بگ بین اور 10 ڈاﺅننگ اسٹریٹ اور خاص طور پر انگلش تھیٹر کے تذکرے رہے، امریکہ کی یاترا تو 60 کی دہائی کے بعد شروع ہوئی ورنہ تعلیم و ترقی کا محور لندن کی گلیاں ہی کہلاتی تھیں۔
تاریخ دانوں کے مطابق الزبتھ کے سربراہ حکومت کے عہدے پر فائز ہونے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر جب اس وقت کے بادشاہ ایڈورڈ VIII اپنی حکومت کے ایک سال کے دوران ہی ایک امریکی طلاق یافتہ خاتون سے شادی کا ارادہ کیا تو برطانوی قانون، عوام اور چرچ کی جانب سے اجازت نہ ملنے پر حکومت سے دستبرداری کو ترجیح دی، اس وقت الزبتھ کے والد بادشاہت کے لئے نامزد کئے گئے مگر ایک سال کے اندر ہی ان کے انتقال کے سبب یہ ذمہ داری الزبتھ کے کاندھوں پر آن پڑی۔ اس وقت وہ 4 کمسن بچوں کی والدہ تھیں۔ الزبتھ اپنے ایک دُور کے رشتہ دار فلپ ماﺅنڈ بیٹن سے 1947ءمیں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی جن کا تعلق یونان کے شاہی گھرانے سے تھا۔ فلپ اور الزبتھ کی پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب وہ صرف 8 سال کی تھیں، یہ ایک خاندان کی شادی کا موقع تھا، دوسری بار وہ اس وقت ملے جب الزبتھ 13 اور فلپ 18 سال کے تھے، دونوں کو ایک دوسرے سے انسیت کا احساس ہوا اور دونوں نے خط و کتابت شروع کی۔ ABC نیوز کے مطابق کنگ جارج یعنی ملکہ کے والد ایک عام باپ کی طرح اس شادی کے بارے میں فکرمند تھے۔ انہیں فلپ کی معاشی حالت سے متعلق تحفظات تھے جب کہ وہ اپنی بیٹی کی نوعمری کی فکر بھی تھی مگر دونوں نے ان تمام باتوں پر اطمینان دلانے کے بعد انہیں اس شادی پر راضی کرلیا۔ فلپ کو اس وقت کے بادشاہ یعنی اپنے سسر کی طرف سے ڈیوک آف ایڈنبرا کا خطاب دیا گیا۔ تمام شادی شدہ جوڑوں کی طرح ان دونوں نے ابتدائی سال ایک اطمینان بخش اور پر سکون زندگی گزارتے رہے، قدرت نے انہیں چار بچوں سے نوازا۔ حالات مختلف ہونے اس وقت شروع ہوئے جب والد کے انتقال کے بعد الزبتھ کو ملکہ برطانیہ کے عہدے پر فائز کیا گیا اور ان کی زندگی گھریلو حدود سے نکل کر سیاست اور ملکی معاملات کے انتظامی امور کی طرف مرکوز ہوگئی۔ اس وقت ڈیوک نے اپنی رائل نیوی کی نوکری کو خیرباد کہا اور یکسوئی سے اپنی رفیقہ حیات کو ہر ممکن معاونت فراہم کی۔ 1997ءمیں ملکہ الزبتھ کی طرف سے اپنے شوہر ڈیو آف ایڈنبرا کی توصیف میں کئے گئے جملے عالمی طور پر پسندیدگی سے دیکھے گئے جس میں انہوں اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے رفیق حیات نے جو سہارا انہیں اور ان کے خاندان کو فراہم کیا ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے جس کے بارے میں وہ خود بتاتے ہیں یا جو ہم کبھی نہیں جان پائیں گے۔ پرنس فلپ ایک اچھے شوہر اور اچھے باپ ثابت ہوئے انہوں نے بچوں کی پرورش میں کلیدی کردار ادا کیا جب کہ 2012ءمیں ملکہ کی سوانح عمری رقم کرنے والی سہیلی بیڈل اسمتھ کے مطابق پرنس فلپ اس امر پر ہمیشہ جھنجھلائے رہے کہ ان کے بچے ان کے خاندانی نام کے حامل نہیں رہیں گے۔ ملکہ اور فلپ کی خانگی زندگی میں کئی پیچیدگیاں اور اتار چڑھاﺅ بھی رہے۔ شاہی سوانح نگاروں نے اس پر اب کھل کر بات کرنا شروع کیا ہے۔ جس میں پرنس فلپ کے کئی دوسرے رومانوی کے اشارے بھی ہیں مگر ان تمام کے باوجود 70 سالہ یہ شادی انگلستان کی تاریخ کی ایک طویل اور شاندار شادی قرار پائی۔
25 سالہ ملکہ الزبتھ نے جب تخت سنبھالا اس وقت برطانیہ دوسری جنگ عظیم کے تباہ کن اثرات سے دوچار تھا، غربت، بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کے بھیانک مسائل کا سامنا تھا۔ اس وقت کے پرائم منسٹر ونسٹن چرچل تھے جن کے متعلق ملکہ الزبتھ کا کہنا تھا کہ وہ ایک بہترین مشورہ دینے کی صلاحیت رکھنے والے انسان تھے۔ چرچل نے ملکہ الزبتھ کے ابتدائی دور حکومت میں ایک مکمل قابل بھروسہ مدبر کا رویہ اختیار کئے رکھا۔ انہیں اس بات کا ادراک تھا کہ نوعمر ہونے کے ساتھ ساتھ ملکہ الزبتھ حکومتی اور سیاسی امور میں نو آموز ہیں، ملکہ نے اس بات کا اپنی اور پرنس فلپ کی طرف سے ممنونیت کا اظہار کیا جب کہ ونسٹن چرچل ہی وہ واحد شخص تھے جنہوں نے 1956ءکے کاغذات کے مطابق ڈیوک سے ان کی شادی پر خدشات کا اظہار کیا تھا ان کے خاندانی پس منظر کی وجہ سے۔ ملکہ الزبتھ دوئم نے بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلد ہی تمام مسائل پر گرفت قائم کی جو اس وقت اور ان کے بعد ان کی حکومت کے طویل دورانیہ میں سامنے آتے رہے، انہوں نے اب تک 14 پرائم منسٹر کے ساتھ کام کیا ہے، چرچل سے لے کر بورس جانسن تک اور ہر پرائم منسٹر کے مزاج کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اسے اپنے فیصلوں پر تائید کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے۔
ملکہ الزبتھ نوعمری ہی سے ایک جری اور باہمت خاتون کے طور پر دیکھی جاتی رہی ہیں، ملکہ الزبتھ کی عمر اس وقت صرف 13 سال تھی جب دوسری جنگ عظیم کی ابتداءہوئی، 1339ءمیں۔ یورپ کے دوسرے بچوں کی طرح الزبتھ کو بھی اپنا گھر چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا۔ 13 اکتوبر 1940ءمیں نو عمر الزبتھ نے اس جنگ سے متاثر ہونے والے تمام بچوں کے لئے ایک پیغام نشر کیا جس میں ایک ساتھ مل کر دکھ کو سہنے کا وعدہ کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس پیغام کو بے انتہا پذیرائی حاصل ہوئی، اس جنگ کے دوران الزبتھ نے رضاکارانہ طور پر کئی امور انجام دیئے اور 18 سال کی عمر کو پہنچ کر باقاعدہ فوج میں شمولیت حاصل کی اور ان کے والد کنگ جارج نے اس بات کو یقینی بنایا کہ الزبتھ کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی بھی خصوصیت نہ برتی جائے اور وہ ایک عام کارکن کی طرح کام کریں۔ 1945ءمیں جب دوسری جنگ عظیم اختتام کو پہنچی تو یہ خبر دی گئی کہ وہ شاہی خاندان کی پہلی خاتون تھیں جو کہ فوج میں باقاعدہ طور پر شامل ہوئیں، حکومتی امور کے علاوہ ذاتی اور خاندانی محاذ پر بھی ملکہ الزبتھ نے کئی دشواریوں کا سامنا کیا۔ ان کی ہمشیرہ مارگریٹ کی زندگی کی کہانیوں سے لے کر بیٹے چارلس اور بہو ڈیانا کی علیحدگی سے لے کر پوتے ہیری کا بکھنگم پیلس کو چھوڑنے کے عمل سے گزرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی شخصیت کا کوئی اور عکس ظاہر نہیں کیا۔ پرنس فلپ کی گزشتہ برس رحلت کے بعد چرچ میں ان کا تنہا اپنی جگہ پر بیٹھنا ان کی شخصیت کی مضبوطی کا گواہ بن گیا۔
96 سالہ ملکہ الزبتھ 70 سال سے برطانیہ پر حکومت کررہی ہیں، تنہا ہو جانے کے بعد بھی اپنی ذمہ داریوں سے ویسے ہی نبردآزما ہیں۔ کسی بھی طور پر وہ ایک کمزور اور تھک جانے والی شخصیت نہیں نظر آرہی ہیں، شاید یہ ہمت ہی ان کی زندگی کا اثاثہ ہے۔ اس وقت برطانوی تو ان کے لئے دعاگو ہیں ہی عالمی طور پر بھی ان کی شخصیت ایک مستحکم برطانیہ کی نشاندہی کے طور پر تسلیم کی جارہی ہے۔
Long Live the Queen
