امریکہ کی طاقت اور پاکستانیوں کی خام خیالی 588

بادشاہ کون ہے؟ شاہ گر کون ہے؟

ظاہر ہے کہ یہ سوال ،ہم نے پاکستان کے تناظر میں کیا ہے۔ کیونکہ یہ سوال روز ہی اٹھتا ہے کہ پاکستان میں بادشاہت (معاف کیجیئے گا ) حکومت کس کی ہے۔ یہ ایک جمہوری نظام کے تحت اکثریتی یا مخلوط جماعت کے سربراہ کی ہے، اس جماعت کے نامزد کردہ وزیرِ اعظم کی ہے، کسی ’ادار ے ‘ کی ہے ( ادارہ کون ہے، خود ایک مشکل سوال ہے ، اس میں پوچھنے والے کی زبان بھی کٹ سکتی ہے، چمڑی بھی ادھڑ سکتی ہے ، اور جان بھی جا سکتی ہے)، حکومت چین کی ہے، سعودی عرب کی ہے، یا شہنشاہ اعظم امریکہ بہادر کی ہے؟
آپ کے لاکھ جان چھڑانے کی کوشش کے باوجود یہ سوال وہ کمبل ہے ، جس سے چھٹکارا بہت مشکل ہے۔یہ سوال فی الفور تو یوں اٹھا کہ ، گزشتہ دنوں ایک ستتر ، اٹھتر سالہ پاکستانی صحافی ’عرفان صدیقی ‘ کو رات کے اندھیرے میں ایک شہر ی مقدمہ میں پولس کی بھاری نفری نے چھاپہ مار کر گرفتار کیا ،ہتھکڑیاں پہناکر گھسیٹا ، اور دوسرے دن عدالت میں بھی ہتھکڑیو ں میں پیش کیا۔ پہلے بھینس کی چوری کے الزام لگتے تھے، اس بار کرائے کے قانون کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا۔ مجسٹریٹ نے ایک عام سے جرم میں جس کی سزا زیادہ سے زیادہ ایک ماہ قید اور پانچ سو روپے جرمانہ ہے، ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پندرہ روز کے ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
اس پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ دورِ عمرانی میں ہر مجرم کے ساتھ یکساں سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں تو یو ں ہوا کے خود عمرانی وزیر، مشیر، اعلیٰ عدالت، ادارے وغیر ہ سب دنگ رہ گئے کے یا کیا کَلج±گ ہے۔ جب ہا ہا کار مچی تو پھر اسی مجسٹریٹ نے اتوار کی رات کو عدالت لگا کر ان کی ضمانت منظور کردی۔ اگر دورِ عمران خانی میں قانون یکساں ہے تو پھر ایسا کیوں کے پکڑو بھی رات کو اور ضمانت پر بھی رات کو رہا کرو۔ جب کہ ملزم کا وکیل بھی عدالت کے سامنے نہیں تھا۔ سب نے پوچھا کہ اس کا اصل ذمہ دار کون ہے، کسی کا خیال مشیرِ داخلہ کی طرف نہیں گیا جو عمران خان کو بادشاہ بنانے کے اہم کردار جانے جاتے ہیں۔
خیر، عرفان صدیقی تو کس کھیت کی مولی ہیں، ایک خبر پر تو کسی نے دھیان ہی نہیں دیا کہ خود عمران خان کے ساتھ امریکہ میں کیا چمتکار ہو گیا۔ وہ گزشتہ دنوں ایک سرکاری دورے پر امریکہ گئے تھے۔ اول تو اس دورے کے کئی درجے تھے۔ خبروں کے مطابق یہ ایک نچلے درجے کا دورہ تھا۔ سرکاری دورے کے تو اور ہی طور ہوتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے وہ قطر کے سرکاری دورے پر گئے تو وہاں انہیں حسبِ مرتبہ اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔
امریکہ کے دورے میں کوئی اعلیٰ امریکی عہدیدار ان کے استقبال کے لیئے ہوائی اڈے نہیں گیا۔ بلکہ پاکستان کے اپنے ہی وزیرِ خارجہ نے ان کا اسقبال کیا۔ انہیں سترہ توپوں کی بھی سلامی نہیں دی گئی۔ گو اس دورے کو عمرانیوں نے خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔
اچھا تو بادشاہ کون ہے اس کا جواب آپ کو شاید اس خبر میں مل جائے کہ ایک پاکستانی ادارے کے سربراہ ،جنرل باجوہ بھی عمران خان کے ساتھ ہی گئے۔ وہ امریکہ کے اعلیٰ عہدے داروں سے اکیلے ملتے رہے ، پھر انہوں نے روایت کے مطابق امریکہ کے فوجی قبرستان میں بھی حاضری دی۔ان کا وہاں شایانِ شان بلکہ شایانِ شاہان، استقبال بھی کیا گیا ، اور انہیں اکیس توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔ زہے نصیب۔
ہمیشہ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ خانِ خاناں عمران خان اب سے پہلے تک امریکہ کے خلاف بڑھکیاں لگاتے تھے۔ امریکہ کے سامنے سر نگوں نہ ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ اب خود ہی وہاں سر جھکائے پہنچے کی شاید کوئی بڑی مالی امداد ہو جائے۔ شاید اسی کو محاورے میں تھوک کر چاٹنا کہتے ہیں۔ عمرانی خانی کچھ بھی کہتے رہیں۔
اب شاید آپ کو احساس ہوا ہو کے پاکستان کا اصل بادشہ کون ہے۔ اور اس کا بادشاہ کون ہے۔ سو آپ یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہم پاکستان کے اولین دنوں ہی میں امریکہ سے معاہدے کر کے اس کے زیرِ نگیں ہوگئے تھے۔ یہ سار ا رشتہ یہ سارے معاہدے اکثر عسکری معاہدے تھے۔ ہم کوریا کی جنگ میں خود کو پیش کرکے امریکہ کے معاون بنے تھے۔ پھر روس کے خلاف ہر امریکی فوجی عسکری معاہدے میں امریکہ کے حلیف رہے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ ہمارا ایک معاہدہ ایران اور ترکی کے ساتھ بھی تھا جو خود بھی امریکہ ہی کے حلیف تھے۔
پھر ایران بھی امریکہ سے الگ ہوگیا ، ایسا الگ کہ آج تک امریکہ نے اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد ترکی نے بھی جو امریکہ کے بڑے فوجی اتحاد کا سب سے بڑا فوجی شریک ہے، امریکہ کی ناراضگی مول لے لی۔ ہم نے یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کی، لیکن پھر پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔ اس ساری کہانی کا لبِ ل±باب یہ ہے کہ ہم لاکھ کہتے رہیں کہ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، اصل بادشاہ امریکہ ہی ہے۔ جو ہر ملک میں اپنے پسندیدہ اداروں سے بادشاہ گری بھی کر واتا ہے۔ امریکہ کی دوستی کسی بھی نام نہاد جمہوری ملک کے فوجی اداروں ہی سے ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایران بھی ہے، ترکی بھی ، جنوبی کوریا بھی، افریقہ کے آمرانہ ممالک بھی اور لاطینی امریکہ کی مفلوک الحال ریاستیں بھی۔ وہی سعودی عرب میں بادشاہ بنواتا ہے۔ اور جو اس کی نہیں سنتا اسے غارت کی حد تک پہنچا دیتا۔ حال ہی میں عراق، شام، اور افغانستان کا حال آپ کے سامنے ہے۔ سو اگر آپ اب پھر یہ سوال سنیں کہ پاکستان کا بادشاہ کون ہے، تو جواباً کہہ دیں کہ، ’امریکہ ہی تو ہے‘۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں