بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں 152

بال جسٹس فائز عیسیٰ کے کورٹ میں

اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط کا سیاستدانوں کی جانب سے مختلف زاویوں سے دیکھا جارہا ہے۔ اس خط میں خفیہ ایجنسیوں پر عدلیہ کے معاملات میں مداخلت اور عدلیہ کی آزادی سلب کرنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ججوں کی فیملیز کو ہراساں کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے گئے۔ ججوں کے بیڈروم سے خفیہ کیمرے برآمد ہوئے جس میں ان کی فیملی کی پرائیویٹ تصاویر تک موجود ہیں۔ غرض اس خط نے ایک جوار بھاٹہ پیدا کردیا ہے اور ان چھ ججز کے خط نے جس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے تاکہ اس بات پر سیر حاصل بحث کی جا سکے کہ آیا کہ ماضی کی طرح ملک بھر کی مختلف عدالتوں میں اب بھی دباﺅ کے ذریعہ بنچ بنوائے جارہے ہیں اور مرضی کے فیصلے کرائے جارہے ہیں کہ نہیں؟
واضح رہے کہ اس خط میں ایک جج شوکت عزیز صدیقی کے کیس کا حوالہ دیا گیا ہے جنہیں اس وقت کے آئی ایس آئی چیف فیض حمید کی جانب سے مداخلت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور آخرکار انہیں برطرف کردیا گیا تھا مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چھ سال قبل جب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو برطرف کیا گیا تھا اور انہوں نے واضح طور پر علی اعلان یہ بات میڈیا کے گوش گزار کردی تھی کہ کس طرح انہیں مجبور کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی کوشس خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے کی گئی مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سلسلہ صرف فیض حمدی سے شروع ہو کر انہیں پر ختم ہو جائے گا اور انہیں قربانی کا بکرا بنا کر بلی چڑھا دیا جائے گا۔ یہ بھی امکان ہے کہ امریکہ سرکار افغانستان سے بے عزتی کے ساتھ ہونے والے انخلاءکا ذمہ دار بھی فیض حمید کو سمجھتی ہے تو کہیں یہ بیرونی طاقتوں کی خواہش پر شروع ہونے والی سازش تو نہیں۔ یا پھر عدلیہ کے ججوں کے ضمیر واقعی جاگ گئے ہیں۔ مگر یہ غیرت اس قدر دیر سے کیوں آئی، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قیام پاکستان کے بعد جب جب عدلیہ کو مداخلت کا سامنا ہوتا، جج صاحبان ”نظریہ ضرورت“ کے بجائے انصاف کو مدنظر رکھتے تو ایسے عناصر کو بے نقاب کرتے جنہوں نے ماضی میں بھی حکومتوں کو برطرف کرایا۔ جن میں لیاقت علی خان کا قتل، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات، نواز شریف کی برطرفی اور پھر عمران خان کی حکومت کی برطرفی کے فیصلہ کو دوام بخشنے کے لئے رات کے 12 بجے عدالتوں کے دروازے کھولنے کا فیصلہ۔ ان سب معاملات کی تحقیقات، سب معاملات پر عدالتی کنونشن بلایا جانا چاہئے، جن میں تمام سابقہ جج صاحبان کو بھی بلایا جانا چاہئے اور عدلیہ کو اپنے ماضی میں کئے گئے غلط فیصلوں پر عوام سے معافی طلب کرنا چاہئے وگرنہ اگر کسی کے اشاروں پر کسی ایک جماعت کو سبق سکھانے کے لئے یہ معاملہ اٹھایا جارہا ہے تو پھر یقیناً یہ قابل مذمت ہوگا اور یہ ملک کے خلاف ایک سنگین سازش اور عوام کے ساتھ ایک بدترین مذاق ثابت ہوگا۔ جس کے نتائج شاید خانہ جنگی کی صورت میں نکلیں، اس وقت پاکستان کو اندرونی اور بیرونی دونوں خطرات کا سامنا ہے۔ فوج مکمل طور پر عوام کا اعتماد کھو چکی ہے۔ پیپلزپارٹی خدشات کا شکار ہے۔ مسلم لیگ نواز اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کررہی ہے۔ عوام بپھرے ہوئے ہیں اور حالات کی بہتری کے منتظر ہیں۔ اگر یہ حکومت فیل ہو گئی اور عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالا گیا تو یہی مثال صادق آتی ہے کہ
نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں