جب بھی کبھی اور جہاں بھی برین واش کا لفظ سامنے آتا ہے تو سب سے پہلے ہمارے ذہن میں خودکش حملہ آور کا تصور آتا ہے کیوں کہ عام طو رپر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ بچپن سے ہی کچھ لوگوں کو اپنے مقاصد میں استعمال کرنے کے لئے برین واشنگ کی جاتی ہے ان کو بچپن سے ہی کسی خاص سینٹر انسٹی ٹیوٹ یا کسی ایسے مقام پر رکھا جاتا ہے جو کہ نہایت پسماندہ علاقہ ہوتا ہے اور ایک خاص ماحول کے تحت ان کی پرورش اور نشوونما ہوتی ہے جو کچھ ان کو بتایا جاتا ہے جو سکھایا جاتا ہے اس سے زیادہ یہ لوگ کچھ نہیں جانتے لیکن برین واشنگ صرف خودکش حملوں کے لئے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اس کے بے شمار غیر قانونی دوسرے مقاصد بھی ہیں۔ برین واشن دراصل کسی کے ذہن کو اپنے قابو میں کرنا ہوتا ہے اور اس سے مجرمانہ فعل بھی کرائے جاتے ہیں یعنی کسی کے ذہن کو مکمل اپنے قابو میں کر لینا اس کی اپنی کوئی شخصیت نہیں رہتی۔ مختلف نفسیاتی طریقوں سے ایک بنے بنائے ذہن کو تبدیل کرکے اس کی پوری شخصیت کو اپنے کنٹرول میں کر لیا جاتا ہے۔ پھر جو کچھ کنٹرول کرنے والا چاہتا ہے وہ وہی کرتا ہے۔ کوئی شخص بے روزگار ہے، بے سہارا ہے پہلے اس کی مدد کی جاتی ہے، اپنا خیرخواہ ظاہر کرنا ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ اس کے ذہن کو بدلا جاتا ہے اور پھر ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کے خیالات ان کی سوچ اور یہاں تک کے ان کے عقائد تک کو بدل دیا جاتا ہے۔
برین واشنگ کا لفظ سب سے پہلے ایڈورڈ ہنٹر نے 1950ءمیں استعمال کیا تھا اس کے خیال میں چائنا کی حکومت اپنے عوام کو حکومت سے تعاون کرنے اور حکومت کو ہر حال میں قبول کرنے کے لئے ان کا برین واش کرتی ہے۔ جس کے مختلف طریقے ہیں۔ بڑی بڑی حکومتوں میں برین واشنگ کے لئے مختلف طریقے فوج پر استعمال کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ جنگی قیدیوں کی بھی برین واشنگ کی گئی اور ان کو ان کی اپنی ہی حکومت کے خلاف کرکے رہا کیا گیا اور ان قیدیوں نے بعد میں اپنے ہی ملک کے خلاف جاسوسی کی۔ برین واشنگ کو خودکش حملوں سے منسوب افغانستان اور عراق میں امریکہ کے حملوں کے بعد پیش آنے والے حالات اور خودکش حملوں سے کیا جاتا ہے۔ جب بھی خودکش حملہ آوروں کی بات ہوتی ہے تو ہر شخص کا ذہن افغانستان اور عراق میں خودکش حملوں کے پیش آنے والے حالات تک ہی محدود رہتا ہے جب کہ خودکش حملوں کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔ کچھ لوگ اس کی ابتداءجاپان سے بتاتے ہیں۔ جب دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے پائلٹس نے اپنی جانیں دے کر حملے کئے لیکن خودکش حملوں کی تاریخ پہلی صدی سے شروع ہوتی ہے جب یہودیوں کے دو گروہوں نے آپس میں ایک دوسرے کے خلاف خودکش حملے کئے۔ دوسری جنگ عظیم سے دو ہزار پندرہ تک بے شمار خودکش حملوں کے واقعات ہوئے۔ پچھلے چالیس سال میں دنیا کے 42 ممالک میں خودکش حملوں کے چھ ہزار واقعات ہوئے جس میں 60 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ ایشیا اور عرب کے ممالک میں خودکش حملہ آور زیادہ تر کم عمر بچے پائے گئے اس لئے یہ خیال کیا گیا کہ ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے جس کے لئے خصوصی کیمپ یا مدرسے بنائے گئے ہیں۔ برین واشنگ کا لفظ صرف خودکش حملوں تک محدود نہیں ہے، برین واشنگ کے مختلف مقاصد ہیں، آج میں جس برین واشنگ کی بات کررہا ہوں یہ ان تمام واقعات سے علیحدہ ہے یہ وہ برین واشنگ ہے جو غیر ارادی طور پر کی جاتی ہے۔ مقصد کسی کا قتل نہیں ہوتا، کوئی مذہبی سیاسی یا ملکی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ صرف اپنی شہرت کے لئے اور پیسہ کمانے کے لئے کچھ ذاتی مفاد کے لئے کچھ ایسے کام کئے جاتے ہیں جو نا تو غیر قانونی ہیں اور نا کسی کی جان لینے کے لئے ہوتے ہیں۔ یہ برین واشنگ معاشرے کی نوجوان نسل کو گمراہ اور تباہ کرتی ہے۔ بچے کا ذہن ایک کچی مٹی یا آج کل کے ٹیکنالوجی دور میں ایک خالی ڈسک کی طرح ہوتا ہے۔ آپ جو کچھ اس ڈسک پر لکھیں گے یہ ڈسک وہی کچھ ہر جگہ پیش کرے گی۔ اسی طرح کچی مٹی سے جیسا چاہیں برتن بنالیں۔ اگر آپ محنتی اور اپنے کام سے محبت کرنے والے ذمہ دار شخص ہیں تو آپ ایک خوبصورت برتن تخلیق کریں گے ورنہ اس مٹی سے بدنما برتن بھی بن سکتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو بہت کچھ سکھاتے ہیں پھر اسکول کے اساتذہ ہیں، دوسرے لوگ ہیں، بچہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو اس کے آس پاس ہو رہا ہوتا ہے لیکن اس وقت برین واشنگ کا سب سے بڑا ہتھیار ٹی وی ہے۔ ایسے ایسے ٹاک شو اور ڈرامے دکھائے جارہے ہیں جو بچوں اور کسی حد تک بڑوں کے بھی برین واشن کررہے ہیں۔ ٹی وی نے تمام لوگوں کے ذہنوں کو قابو میں کیا ہوا ہے، اب لوگ صرف وہی کرتے ہیں جو ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے اور وہی کچھ سوچتے ہیں جو ٹاک شوز میں بتایا جارہا ہے۔
