بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 111

بین الصوبائی مسافر بسوں کے ڈرائیورز؟

بعض سچ ایسے ہوتے ہیں جنہیں ہم جاننا ہی نہیں چاہتے بلکہ ان سے ارادتاََ آنکھیں چرا لیتے ہیں۔ایسا ہی ایک سچ بین ا لصوبائی بس ڈرایﺅر حضرات کے نہایت تکلیف دہ شب و روز ہیں۔ اِن گاڑیوں کے مالکان، موٹر وے پولیس، ٹرانسپورٹ کی وزارت کے ذمہ دار … ایسا لگتا ہے اِن ڈرائیور حضرات کے مسائل جان بوجھ کر نظر انداز کرتے ہیں۔میں نے چترال اورگرد و نواح کے یکے بعد دیگرے سفر کئے اور اِن مسائل کو بچشمِ خود دیکھا ہے۔حال ہی میں چترال سے اسلام آباد پہنچا ہوں۔یہ پچھلے پانچ ماہ میں چترال کا تیسرا سفر تھا۔ یہ سفر نامہ نہیں ہے … مجھے صرف ایک بات بتانا ہے لیکن جب تک پس منظر معلوم نہ ہو بات کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ مختصر یہ کہ میرا پہلا سفر چترال شہر، گرم چشمہ اور کیلاش وادی بمبریت تک تھا جو خالصتاََ گھر والوں کے ساتھ تفریحی دورہ تھا اور پرائیویٹ کار میں طے ہوا۔ دوسرا سفر میں نے اکیلے کیا۔ جولائی کی 15 تاریخ کو میں ا سلام آباد سے ’ ب±ونی ‘ کوسٹر میں براستہ چترال گیا۔میری نشست پیچھے تھی لہٰذا ڈرائیور صاحب سے کوئی بات چیت نہ ہو سکی۔واپس اسلام آبادکے لئے 18 جولائی کی صبح ساڑھے چھ بجے روانہ ہوا۔اب کی مرتبہ میری نشست ڈرائیور صاحب کے ساتھ تھی۔ راستے میں دو دفعہ چھوٹی اور بڑی خرابی بھی ہوئی جو موقع پر دور کر دی گئی یوں ہم شام ساڑھے سات بجے اسلام آباد پہنچے۔ ڈرا ئیور صاحب سے رسماََ الوداعی جملے کہے کہ اب آپ اور میں آرام کریں گے تو جواباََ اس نے کہا کہ کیسا آرام!! میں نے تو یہ کوسٹر دوبارہ واپس بونی لے کر جانی ہے …ایک اور سفر : 11 نومبر کو شام ساڑھے چھ بجے کوسٹر سے بذریعہ چترال بونی کے تیسرے سفرپر روانہ ہوا۔ مگر اس میں میرے دوست ڈاکٹر احسان الرحمن شریک تھے۔کوسٹر اڈے سے نکلی ہی تھی کہ ہیڈ لائٹ کا مسئلہ پیدا ہوا۔ جب وہ سوات ایکسپریس وے کی پہلی سرنگ میں پہنچی تو گاڑی کی تمام روشنیوں نے کام چھوڑ دیا۔ علم ہوا کہ جنریٹر / آلٹرنیٹر خراب ہو گیا۔اِسی حالت میں کوسٹر ایک ہوٹل پر پہنچی۔یہاں مسافروں نے کھانا وغیرہ کھایا۔
تین گھنٹے بعد یہ مسئلہ حل ہوا۔ واضح ہو کہ ماسواءڈرائیور صاحب اور اس کے معاون ، سب نے آرام کیا کیوں کہ یہ پرانا جنریٹر اتار کر دوسرا ڈال رہے تھے۔گاڑی دوبارہ عازمِ سفر ہوئی۔اسلام آباد سے چک درہ تک موٹر وے دو رویہ کشادہ سڑکوں پر مشتمل ہے۔پھر یہاں سے ’ دِیر ‘ تک گزارہ کرنے والی سِنگل سڑک ہے جب کہ ضلع چترال میں بیشتر سڑکیں صرف ” راستے “ ہیں۔ان کو سڑک نہیں کہا جا سکتا۔ ’ اِن ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آﺅ کے مصداق !! چترال تک تو ’ یو ٹانگ ‘ بس بھی چلتی ہے۔ مزے کی بات یہ کہ چترال شہر تک جانے کے لئے بھی جا بجا خطرناک کچے راستے جن کی ایک طرف نشیب میں دریائے چترال اور دوسری جانب بالکل سر پر آتی چٹانیں اور پہاڑ۔ چترال سے آگے جیپ ، پِک اَپ اور کاریں!! بات ہو رہی تھی بونی کے اس تیسرے سفر کی۔ ہم دونوں ڈرائیور صاحب کے بالکل پیچھے والی نشستوں پر بیٹھے تھے۔میں نے خود دیکھا کہ تین چار مرتبہ گاڑی روک کر چند منٹ ڈرائیور نے اتر کر ٹھنڈی ہوا میں کچھ چہل قدمی کی پھر گاڑی چلائی۔فجر کی نماز صبح 6:10 بجے چترال بس اڈے میں پڑھی۔ یہاں سے روانہ ہو کر پھر ایک جگہ ناشتہ کرنے رکے۔ یہاں میں اور ڈاکٹر صاحب ڈرائیور صاحب اور اس کے معاون کے ساتھ ہی بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے ایسی ایسی تلخ حقیقتیں بتائیں کی شدید سردی میں بھی پسینہ آ گیا: یہ کہ اسلام آباد سے بونی تک 13 گھنٹے اور پھر واپس اسلام آباد ایک ہی ڈرایﺅر چلاتا ہے۔ مزید افسوس ناک بات یہ کہ اسے ا یک طرف جانے کے محض2000 روپے ملتے ہیں گویا آنا جانا 4000 روپے ہوئے۔ جب کبھی مسافروں کا زیادہ رش ہو، یا دوسرا ڈرائیور میسر نہ ہو تو ایسے میں پھر اسی ڈرائیور کو مزید جانا پڑتا ہے۔گویا وہ 52 گھنٹے چلاتا ہے۔اسی پر بس نہیں بلکہ اِن ڈ رائیور صاحب نے بتایا کہ عیدین یا کسی اور انتہائی رش والے زمانے میں ا±ن سے 90 گھنٹے بھی کوسٹر چلوائی گئی۔
یہ تو میرے لئے ایک عجیب اور بالکل نئی بات تھی۔ بقول مسرور انور: ’آج لگتی ہے پر اِک بات نئی بات مجھے … ‘۔ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ طبیعت خرابی، بیماری کی کوئی چھٹی نہیں۔جس دن کام پر نہ جائیں پیسے نہیں ملتے ! جب میں نے پوچھا کہ کورونا کے زمانے میں گاڑی مالکان نے آپ لوگوں کا کیسے خیال رکھا ؟ تو جواب دیا کہ ہم بھی دیہاڑی پر ہوتے ہیں۔کام ہو گا تو پیسے ملیں گے۔۔۔ آپ 26 گھنٹوں کو چھوڑئیے! 13 گھنٹے بھی مسلسل چلانا قطعاََ مذاق نہیں۔اب اگر ڈرائیور حضرات اونگھ، تھکاوٹ، ذہنی دباﺅ وغیرہ کے لئے کوئی نشہ آور شے استعمال کرتا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے! بہرحال جب ہم لوگ بونی کے اڈے پہنچے تو میرے دوست ڈاکٹر احسان الرحمن نے ڈرائیور صاحب سے پوچھا کہ اب تو آپ ساڑھے تین چار گھنٹے دیر سے پہنچے ہیںصبح والے مسافر تو کسی اور کوسٹر میں جا چکے کیا اب آپ یہاں کچھ دیر سوئیں گے؟ اس پر ڈرائیور صاحب نے مسکرا کر کہا کہ نہیں … اب یہ کوسٹر پشاور لے کرجا ﺅںگا !! سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بونی اور چترال کے راستے پر چلنے والے ڈرائیور انسان نہیں؟ کیا اِن کے آجر، گاڑی مالکان صرف منافع سے دلچسپی رکھتے ہیں؟
کیا اِن کو مسافروں ، ڈرائیور حضرات اور ان کے معاونین کے جان و مال اور خود اپنی گاڑیوں کا کوئی رتّی بھر خیال نہیں ؟ کیا راستے میں دورانِ سفر گاڑی کی خرابی دور کرنے کے بھی یہ ہی ڈرائیور ذمہ دار ہیں؟ کیا اِن ڈرائیوروں سے ڈرائیوری کے ساتھ مکینیک کا بھی کام لیا جاتا ہے؟ جب ایسی بسوں میں سفر کرنے والے مجھ جیسے عام لوگ اِن ڈرائیور حضرات کو سخت دباﺅ اور کٹھن حالات میں گاڑی چلاتے دیکھتے ہیں تو کیا ٹرانسپورٹ کی وزارت کے ذمہ داران یہ نہیں جانتے ؟ یہ صرف چترال یا پشاور جانے والے ڈرائیوروں کی کہانی نہیں بلکہ یہ تو پورے پاکستان کی عوامی مسافر ٹرانسپورٹ کی کہانی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ خواص کے لئے چلائی گئی مسافر بس کمپنیوں کے ڈرائیور اس صورتِ حال سے دوچار نہیں۔میں نے خود اسلام آباد اور لاہور سے کراچی دو مختلف نجی مسافر بس کمپنیوں میں سفر کیا۔اسلام آباد سے جانے والی بس کے ڈرائیور صاحب اور بس میزبان فاروق آباد میں تبدیل ہوئے۔اور لاہور سے جانے والی بس کے بہاولپور میں۔کیا اس قسم کا کوئی قاعدہ دیگر عوامی بسوں ، کوسٹروں اور ویگنوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا؟ کیا عوامی بسوں، کوسٹروں اور ویگنوں میں سفر کرنے والے مسافر انسان نہیں ؟ کیا اِن گاڑیوں کے ڈرائیور س±پر مین یا مافوق الفطرت سمجھ کر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں؟ کیا اِن گاڑیوں کے مالکان اپنا کچھ منافع کم کر کے ڈرائیور حضرات کے مسائل حل نہیں کر سکتے؟ آخری بات یہ کہ اِن ڈرائیور صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ لکھتے ہیں ذرا ہمارے یہ مسائل بھی لکھئے کہ ہم کن حالات میں گاڑی چلا کر مسافروں کو صحیح سلامت ا±ن کی منزلوں تک پہنچاتے ہیں اور کیوں نشہ کرتے ہیں!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں