عدالتیں یا ڈاک خانے؟ 177

بے لباسی کا نیا رواج چل پڑا؟

کیا پاکستان واقعی ری پبلک بنانا بن چکا ہے یا پھر اسے اس طرح سے بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اب ایک نئی روایت ایک نیا طریقہ کار تفتیش کے نام پر اپنایا گیا ہے وہ ہے سیاسی مخالفین کو پولیس یا ایف آئی اے کے ذریعے گرفتار کروانے اور متعلقہ عدالت سے ریمانڈ حاصل کرنے کے بعد انہیں الف کرنے کے بعد ان سے پوچھنا کہ کیسا لگا ہماری مخالفت کرکے۔۔۔۔
یعنی کسی کو بھی قانون اور تفتیش کے نام پر اس طرح سے عریاں کردیا جاتا ہے، کیا اس طرح سے کرنا کسی قانون کے عین مطابق ہے یا پھر یہ ان کا اپنا اپنا بنایا ہوا قانون ہے اور پھر پولیس یا یہ دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خود ہماری عدالتیں کس مرض کی دوا ہیں۔ مقدمہ درج کئے جانے کے بعد کسی کو حوالات میں بند کرنے کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ اس زیرحراست شخص کے اب آپ مالک بن چکے ہیں۔جس طرح کا سلوک آپ ان کے ساتھ کریں آپ سے کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔۔۔؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو کسی کو اس طرح سے بے لباس کرنے کا حق یا پھر لائسنس کس نے دے دیا ہے۔ عزت اور زلت تو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہے۔ وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے زلت دے، آپ لوگوں نے کب سے قدرت کے کام کرنا شروع کردیئے ہیں۔ نعوذباللہ آپ لوگوں نے کب سے خدائی دعویٰ کرنا شروع کردیا ہے، کسی کو بے لباس کرکے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں۔۔۔؟ کیا ایسا کرکے آپ سچ کو یا پھر حقیقت کو بے نقاب ہونے سے روک دو گے۔ بالکل بھی نہیں۔ یہ آپ لوگوں کی بھول ہے، یا پھر آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں، جس کسی نے بھی ایسا کرنے کا آپ لوگوں کو مشورہ دیا ہے وہ دراصل آپ لوگوں کو بندگلی میں دھکیلنے کی کوشش کررہے ہیں۔ آپ لوگوں کے سامنے امریکہ کی مثال موجود ہے وہ بھی اپنے مخالفین کی، اپنے ایئرپورٹ پر سیکیورٹی کے نام پر اسی طرح کی رسوائی کرتے ہیں، اپنے ہی ملک میں آنے والے مہمانوں کا استقبال انہیں بے لباس کرنے کی صرورت میں کرتے ہیں۔ آپ لوگوں نے دیکھ لیا کہ ایسا کرنے سے کیا امریکہ کی نفرت میں کوئی کمی آئی نہیں۔ بالکل بھی نہیں، بلکہ خود پاکستان میں ان کے خلاف نفرتوں میں اضافہ ہوا اور اب لوگ ان ہی کے رسوائے زمانہ فارمولے کو استعمال کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے عوام میں اپنے لئے نفرتوں اور غم و غصے میں اضافے کا باعث بن رہے ہو۔ بڑے بڑے نامور مقبول ترین سیاستدانوں کو گرفتار کروانے کے بعد انہیں بے لباس کرنا کوئی اچھی روایت نہیں۔ اور نہ ہی سچ بولنے والے صحافیوں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا آپ لوگوں کو زیب دیتا ہے اور سب سے بڑھ کر ہماری عدلیہ اس میں قصور وار اور ذمہ دار ہے۔ کیونکہ جب کسی ملزم کا ریمانڈ کسی عدالت سے لیا جاتا ہے اور اسے تفتیشی ریمانڈ پر پولیس یا ایف آئی اے یا کسی دوسرے تفتیشی ادارے کے حوالے کیا جاتا ہے تو اس وقت وہ ملزم عدالت کا ایک طرح سے امانت ہوتا ہے جس طرح سے امانت میں خیانت نہیں کی جاتی۔ اس طرح سے ملزم کے ساتھ بھی کسی طرح کا کوئی نارواں سلوک نہیں ہونا چاہئے اور پھر پولیس کے حراست میں موجود کسیبھی شخص سے کسی اور ادارے سے تعلق رکھنے والوں کا کیا کام ہے؟ ان کا اس سے کیا لینا دینا؟ آخر وہ کس اختیار اور کس قانون کے تحت کسی بھی زیر حراست ملزم پر آکر تفتیش کے بہانے انہیں اذیت دیں اور اس کے بعد انہیں بے لباس کریں۔ شہباز گل اور اس کے بعد اعظم سواتی کے ساتھ کئے جانے والا سلوک ناقابل بیان ہے۔ اس سے قطع تعلق کے انہوں نے کیا بیان دیا کس کے خلاف کیا بات کی ہے ان کا وہ جرم اتنا سنگن نہیں کہ اس کے بدلے آپ انہیں بے لباس کریں اور اذیت ناک سزا دیں، کوئی بھی مہذب معاشرہ اس طرح کے اقدامات کی اجازت نہیں دیتا اور نہ ہی دینا چاہئے، اس لئے تو مجھے یہ کہنا پڑا کہ کیا پاکستان کو ”ری پبلک بنانا“ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ خدارا اس سلسلے کو روکے۔۔۔ اس سے وطن عزیز کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ پاکستان ہم سب کا ہے اور پوری پاکستانی قوم کو افواج پاکستان سے عقیدت کی حد تک لگاﺅ اور محبت ہے، پوری قوم اپنی افواج کی پشت پر کھڑی ہے۔ اسی جذبے اور محبت میں پاکستانی کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں