پاکستان اپنے وجود میں آنے کے بعد 1947ءسے 1968ءتک ایک مثالی مملکت کی مانند ترقی کی طرف گامزن رہا۔ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی نظریں پاکستان کی جانب تھیں۔ پاکستان اس وقت اس حیثیت میں تھا کہ مغربی ممالک کو قرضہ دینے کی استطاعت رکھتا تھا اور عملی طور پر جرمنی کو 1967ءمیں قرضہ بھی دیا تھا۔ یہ ملک ان لوگوں کا تھا جو ہندوستان پر حکومت کر چکے تھے۔ ہندوستان ایک اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے سامنے رہ چکا تھا۔ اس دور کے مسلمانوں کی بہادری، شجاعت اور عزم کی ساری دنیا گواہ تھی۔ آخری مغل بادشاہ کی کمزوریوں اور عیاشیوں کی بناءپر انگریز کو یہ موقع مل گیا کہ وہ اپنی عیاری، چالبازی اور دھوکہ دہی سے ہندوستان پر قابض ہو گیا اور جب انگریز کے جانے کا وقت ہوا تو اسے تشویش ہو گئی کہ یہ مسلمان ایک مرتبہ پھر متحد ہو کر ایک بڑی طاقت نہ بن جائیں لہذا اس نے رُخصت ہوتے وقت اس ملک کی کچھ چابیاں اپنے زرخرید غلاموں کے حوالے کردیں جو پہلے ہی وفاداری کے عوض جاگیردار، سرمایہ دار اور وڈیرے بنے بیٹھے تھے۔ یہ لوگ صرف موقع کے انتظار میں تھے اور 1968ءکے بعد بھٹو کی کوششوں سے یہ موقع ان کے ہاتھ آگیا اور پاکستان جو ہوا کی رفتار کے ساتھ ترقی کررہا تھا اس کی رفتار انگریزوں کی خواہش کے مطابق دھیمی ہوتی چلی گئی اور ان تمام لوگوں کے خواب چکنا چور ہو گئے جنہوں نے یہ سوچا تھا کہ ہم اس ملک کو ایک طاقتور اسلامی اور فلاحی ریاست بنائیں گے۔ آج ساٹھ سال کے بعد قدرت ایک اور موقعہ دے رہی ہے اور پاکستان ایک مرتبہ پھر قابضوں، لٹیروں، موروثی سیاست دانوں سے آزاد ہوا ہے لیکن کچھ غیر ملکی قوتوں کو پھر تشویش لاحق ہوئی ہے اور کچھ ستر سال سے بگڑے ہوئے معاشرے کے ناسور اس تبدیلی میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔ وہ اس تبدیلی کو قبول نہیں کرنا چاہتے۔ اس وقت پاکستان کا مستقبل ان نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے جو تقریباً مایوس ہو چکے تھے کسی بھی ملک کی قسمت سنوارنے کا دارومدار اس ملک کی نوجوان نسل پر ہوتا ہے ملک میں امن، خوشحالی اور ترقی کے لئے نوجوان نسل کا باشعور، محنتی، تعلیم یافتہ اور ذہنی و جسمانی صحت مند ہونا بہت ضروری ہے۔ نوجوان نسل کی سوچ اگر منفی ہو تو اپنے اور اپنے ملک کے مستقبل کی راہ میں کانٹے بھی بچھا سکتے ہیں اور اگر سوچ مثبت ہو تو اس راہ میں پھولوں کی سڑک تعمیر کر سکتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کا نوجوان ایک عجیب و غریب صورت حال کا شکار ہے۔ یہ تین دہائی سے پہلے کے نوجوان سے بالکل مختلف ہے، نہ جوش، نہ جذبہ، نہ کوئی امنگ۔ مستقبل کا خوف اور مایوسی چہرے سے عیاں ہے، کچھ فیصد نوجوان بکھرے ہوئے، بگڑے ہوئے، بپھرے ہوئے، غصہ ناک پر اور ہر چیز تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔ نہ اپنی تباہی کی فکر اور نہ ملک تباہ ہونے کا خیال اور نہ ہی آنے والی نسلوں کے بارے میں کچھ سوچنا لیکن اس کے برعکس ایسے نوجوان جن کی تعداد کم ہے وہ بھی ہیں جن میں عزم ہے، جذبہ ہے، ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن بے چارگی یہ ہے کہ نہ ان کے پاس قوت ہے اور نہ ہی وسائل، نہ ہی کوئی ایسا ادارہ یا تنظیم ہے جو ان کو صحیح راستے یا منزل کا راستہ دکھا سکے۔ مایوس ہو کر ان نوجوانوں نے صرف ایک مقصد بنا لیا ہے کہ اسے اپنا مستقبل ملک سے باہر جا کر بنانا ہے وہ ملک کے حالات سے دل برداشتہ ہو چکا ہے۔ جب کہ پہلے کے نوجوان میں ملکی حالات تبدیل کرنے کا جذبہ اور ہمت تھی اسے معلوم تھا کہ ملکی حالات اس کے مستقبل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں کیونکہ اسے اپنا مستقبل اپنے ملک میں ہی بنانا ہوتا تھا۔ جس زمانے میں طلباءتنظیمیں عروج پر تھیں اس زمانے کے نوجوان کی آواز ملکی سیاست پر پوری طرح سے اثر انداز ہوتی تھی لیکن ہمارے سیاست دانوں نے اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہوئے طلباءتنظیم کے ان نوجوانوں کی آواز کو خاموش کردیا اس کے بعد بھی ان طلباءتنظیموں کی عدم موجودگی کے باوجود اس وقت کا نوجوان حساس، پُراُمید تھا اپنے ملک اور مستقبل کے بارے میں بھی فکر مند تھا۔ پھر آہستہ آہستہ سیاست کا رنگ تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ سیاست میں قومیت کھل کر سامنے آگئی جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ شروع ہوگیا۔ قومیت کی بنیاد پر ترجیح، ڈومیسائل کے جھگڑے، سیاست دانوں کی کھینچا تانی، کرسی کی جنگ، ان تمام چیزوں کا بہت اثر پڑا اور کئی مسائل پیدا ہوئے۔ اس دوران قومیت کی بنیاد پر کئی تنظیمیں منظرعام پر آئیں۔ جس کی وجہ سے اس ملک کے نوجوان نسل جو ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی، کئی لوگ بددل ہو کر ملک سے باہر چلے گئے، اپنے دور کے جوشیلے طالبعلم رہنما جو کہ اب سابق ہو چکے تھے اور نوجوان نسل کو ان کی رہنمائی کی ضرورت تھی لیکن یہ سارے سابق رہنما اچھے اچھے عہدے لے کر ایک کنارے ہو گئے اور نوجوان ایک مرتبہ پھر بے چپو کی ناﺅ کے مسافر ہو گئے۔ نوجوانوں کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ کچھ نوجوانوں کو مفاد پرست سیاست دانوں نے سنہرے خواب دکھا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ جب حالات کچھ زیادہ ہی بدتر ہو گئے، ایک وقت ایسا آیا جب اس ملک کے نوجوان سیاست اور سیاست دانوں سے اور اس ملک کے مستقبل سے مایوس ہونے لگے اور مستقبل بنانے کے لئے ان کا ذہن باہر جانے کی طرف مائل ہوگیا۔ اب اسے یہاں کے سیاسی حالات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کا مقصد صرف ملک سے باہر جانا تھا۔ اسے یہاں اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ محب وطن نہیں ہے، وہ اپنے ملک اپنے لوگوں سے محبت کرتا تھا وہ ایک سچا پاکستانی بن کر رہنا چاہتا تھا اس میں عزم ارادے اور تعمیر کی خواہش بھی پیدا ہوسکتی تھی لیکن اس کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا وہ اب بھی موجود ہے لیکن وہ اکیلا ہے اس ملک کے کروڑوں نوجوانوں میں سے ہر ایک نوجوان اپنی جگہ اکیلا ہے۔ یہ سب اگر ایک جھنڈے تلے جمع ہو جائیں تو کوئی بعید نہیں کہ اس ملک کی قسمت بدلی جا سکتی ہے۔
ایک بڑی تعداد میں نوجوانوں کو عمران خان میں امید کی کرن نظر آئی ہے، خدا کرے اس کرن کو اتنی طاقت مل جائے کہ یہ روشنی بن کر پورے ملک میں اجالا کردے اگر اس کرن میں خلوص ہے، محبت ہے، دیانت داری ہے، محب وطن ہے تو خدا بھی مدد کرے گا اور ان شاءاللہ یہ کرن ملک کا اجالا بنے گی لیکن اس کے لئے ملک کے ہر نوجوان کو اُمید کی اس کرن سے ایک ایک شمع روشن کرنا پڑے گی۔ ہر وہ نوجوان جو اپنی جگہ مایوس اور خوف زدہ بیٹھا ہوا ہے اور اپنے آپ کو تنہا سمجھتا ہے اسے یہ علم نہیں ہے کہ وہ اکیلا کتنی بڑی طاقت ہے اگر اس میں جوش ہے، ولولہ ہے، لگن ہے، اور سب سے بڑھ کر اگر جذبہ تعمیر ابھی بھی زندہ ہے تو وہ ایک بہت بڑی طاقت ہے۔ ضرورت صرف اتحاد کی ہے اگر ہر شخص اپنے ہر جھگڑے کو بھول کر علاقے کی زبان کو درمیان میں نہ لا کر ایک پاکستانی کی حیثیت سے متحد ہو جائے تو حکومت کسی کی بھی ہو اسے عوام کی رائے کا احترام کرنا ہو گا۔ فی الحال عمران خان کے علاوہ قوم کو کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آرہا ہے، پرانے تمام سیاست دانوں کو آزمایا جا چکا ہے۔ سیاست دانوں کی جذباتی تقریریں، رونا دھونا یہ سب ڈرامے قوم کی سمجھ میں آچکے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قوم واقعی تبدیلی کی خواہش مند ہے لیکن ایک بڑا کرپٹ طبقہ رکاوٹیں پیدا کررہا ہے۔ پاکستان جن غیر معمولی حالات اور واقعات سے گزر رہا ہے اس میں صرف ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر ٹاک شوز سے مزے لینے کے بجائے سنجیدگی سے عملی طور پر قدم اٹھایا جائے۔ پاکستان کے اور نوجوان نسل کے مستقبل کا فیصلہ خود نوجوان نسل کے ہاتھ میں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ موروثی سیاست دانوں کو بھلا کر اپنے بارے میں سوچا جائے۔
621