تبدیلی سرکار کے کارنامے تیزی کے ساتھ ملکی عوام کے سامنے آرہے ہیں۔ مدینہ کی ریاست بنانے کے دعویداروں سے ایک مری جیسی وادی ہی کنٹرول نہ ہو سکی جس کی وجہ سے موسم کو انجوائے کرنے کے لئے گھروں سے نکلنے والے بے بسی کی موت مارے گئے۔ اب اس افسوسناک سانحہ کے ذمہ داروں کا پتہ لگانے کے لئے رسوائے زمانہ کمیٹیوں کا سہارہ لیا گیا جب ملک کے ایک چھابڑی والے اور ایک گھاس بیچنے والے تک کو اس کا علم ہے کہ اس واقعہ کا ذمہ دار کون ہے یا یہ کس کی مجرمانہ غفلت و لاپرواہی سے یہ المیہ رونما ہوا لیکن افسوس کہ تبدیلی سرکار اتنی بڑی حقیقت سے لاعلم کیوں ہے کہ انہیں اب اس کا پتہ لگانے کے لئے کمیٹی کا سہارہ لینا پڑ رہا ہے۔ یہ تو پاکستان کی عوام کو اچھی طرح سے معلوم ہے کہ حکومت جب کسی معاملے کو دبانا چاہتی ہے اور عوام کی توجہ سے اس معاملے کو دور کرنا چاہتی ہے تو اسے یا تو کسی کمیشن کے متھے مار دیا جاتا ہے یا پھر اسے انکوائری کے دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے اور اس کے بعد اس انکوائری کی وہی رپورٹ سامنے آتی ہے جو ارباب اقتدار چاہتے ہیں۔
المیہ مری ایک کھلی کتاب ہے، محکمہ موسمیات کی وارننگ اور ان کی پیشن گوئیاں 5 جنوری سے 7 جنوری تک ریکارڈ پر موجود ہے اس پر متعلقہ سرکاری اداروں نے احتیاطی تدابیر کیوں اختیار نہیں کی؟ وزیر اعظم عمران خان بار بار اپنے بیانات میں سارا ملبہ عوام پر ڈال رہے ہیں کہ عوام کو جب شدید برف باری کی اطلاع محکمہ موسمیات سے مل گئی تھی تو وہ مری گئے کیوں تھے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں مری تک پہنچنے کے لئے ہائی وے کی سہولت کس نے فراہم کی؟ کیا اتنے بڑے ہنگامی صورتحال پر موٹر وے پولیس کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ بارہ کوہ ٹول کو ہی بند کر دیتے اگر موٹر وے پولیس 4 جنوری کو بارہ کوہ ٹول کو بند کردیتی تو یقیناً صورتحال یہ نہ ہوتی جو اب ہوئی ہے۔ وہاں ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں ہی نہ پہنچ پاتی۔ اس سارے المیہ کا مرکزی اور گھناﺅنا کردار ہی موٹر وے پولیس کا ہے۔ ایک اندھے کو بھی حکومت کی یہ مجرمانہ غفلت و لاپرواہی صاف طور پر نظر آرہی ہے مگر کسی کو اگر یہ نظر نہیں آرہی ہے تو وہ خود حخومت ہے کیونکہ موٹر وے پولیس کا آئی جی بھی کوئی معمولی افسر نہیں ہے۔ محض انہیں بچانے یا ایک طرح سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے اتنی بڑی انکوائری کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری جانب مری کی انتظامیہ کو بچانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کیونکہ وہاں کا اے سی خود زلفی بخاری کا لاڈلا ہے اور زلفی بخاری کے وزیر اعظم عمران خان سے کیا مراسم ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اس وجہ سے اتنی بڑی حکومتی غلطی یا لاپرواہی کو انکوائریوں کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ مری کے ہوٹل والے اگر اس روز اپنے انسان ہونے کا ثبوت دیتے تو اتنا بڑا المیہ رونما نہ ہوتا۔ ہوٹل کے ایک کمرے کا کرایہ ایک ہزار اور 5 ہزار روے سے بڑھا کر ایک ایک لاکھ روپے کردیا گیا تھا جب کہ ایک پراٹھا ایک ہزار روپے میں، انڈا تین سو اور چائے کی پیالی 5 سو روپے میں فروخت کی گئی۔ اس سے بڑا دکھ اور افسوس کا مقام اور کیا ہو گا کہ مری والوں نے تو وہ کام کیا جو کسی کافر ملک میں بھی کوئی نہیں کرتا کہ موت کے منہ میں جانے والوں سے منہ مانگے داموں انہیں کھانے پینے کی چیزیں فروخت کی جائیں۔ اگر وقوعہ والے روز مری کے ہوٹل والے یہ مدمعاشی نہ کرتے تو لوگ ہوٹلوں کو چھوڑ کر گھروں کو واپس جانے کے لئے نہ نکلتے اور نہ ہی کھلے آسمان تلے بے بسی کی موت مارے جاتے۔ اب ان ہوٹل والوں کے خلاف کارروائی کون کرے گا۔ ان کا جرم اب صرف مہنگے داموں ہوٹل کے کمرے دینا یا کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرنا نہیں بلکہ ان بے گناہوں کی ہلاکت بن گیا ہے اور ان سب کے خلاف اعانت جرم کے تحت قتل کے الزام میں کارروائی کی جانی چاہئے اور ان کے ساتھ ساتھ اس اے سی کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے جن کے فرائض منصبی میں یہ شامل تھا کہ وہ ہوٹل والوں کے پرائس کنٹرول کو چیک کریں لیکن چونکہ اے سی موصوف نے بھی اپنے فرض سے انصاف نہیں کیا۔
میں پھر کہتا ہوں کہ بے بسی کی موت مرنے والے تبدیلی سرکار کا تعاقب کرتے رہیں گے ان کی موت رائیگاں نہیں جائے گی، یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے اور یہ ضرور رنگ لائے گا۔ ملکی عوام کو چاہئے کہ وہ ایک بار پھر مری کے ان ہوٹلوں اور سیاحتی مقامات کا سوشل بائیکاٹ کریں جس طرح سے انہوں نے پہلے کیا تھا۔ اس لئے کہ یہاں کے یہ کاروباری لوگ انسان نہیں بلکہ وحشی اور درندے ہیں جو تفریح کے لئے آنے والے لوگوں کو لوٹتے رہتے ہیں اگر وزیر اعظم عمران خان نے المیہ مری کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انہیں بچانے کی کوشش کی تو یہ ان کی حکومت کے لئے بالخصوص اور خود پی ٹی آئی کے تابوت کے لئے بالعموم آخری کیل ثابت ہوگا۔
207