نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 177

تحریک آزادی پارٹ ٹو

اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی جمہوریت میں شامل جمہور اب پوری طرح سے متحرک یا پھر بیدار ہو چکی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ یعنی پاکستان کے پہلے منتخب وزیر ذوالفقار علی بھٹو نے ”طاقت کا سرچشمہ عوام“ کا نعرہ لگایا تھا، وہ نعرہ یہ اس خواب کے اب شرمند تعبیر ہونے کا وقت آگیا ہے۔ ملک غیر سرکاری، غیر اعلانیہ انتخابی ماحول پیدا کردیا گیا ہے، ملکی عوام کے ٹوئیٹر پر ”امپورٹڈ حکومت نامنظور“ کے ٹرینڈ نے پاکستانی جمہوریت میں بالخصوص اور سیاست میں بالعموم ایک ہل چل مچا دی ہے جس سے اس امپورٹڈ حکومت میں شامل 13 سیاسی پارٹیوں میں ایک خوف و ہراس اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے، حکومت میں شامل ہونے کے باوجود وہ غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں، انہیں خود بھی نہیں معلوم کہ جس حکومتی کشتی میں وہ سوار ہو گئے ہیں وہ کتنی ساحل تک پہنچ بھی پائے گی یا کہ وہ بھنور یا گرداب میں ہی پھنس کر رہ جائے گی۔
ادارے ملک اور آئین کے ساتھ کھڑے ہونے کا عزم دہرا رہے ہیں، اس آئین اور قانون کے ساتھ جس میں 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کے اس ملزم جس پر فرد جرم عائد ہونے جارہی ہے اور وہ سزا سے بچنے کے لئے ضمانت پر ہیں انہیں یہ آئین اور جمہوریت گرفتاری اور خود کو بے گناہ ظاہر کرنے کا موقع دینے یا انہیں خود کو بے گناہ ظاہر کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے انہیں 22 کروڑ عوام کا وزیر اعظم بنوا رہا ہے یہ ایک ایسا شرمناک فعل ہے کہ جس کی مثال کسی بھی مہذب معاشرے اور جمہوریت میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی لیکن پاکستان میں ایسا ہی ہوتا چلا آرہا ہے۔ لیکن میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ پاکستان کے جمہوریت کی جمہور اب پوری طرح سے بیدار ہو چکی ہے شاید اب اس بدلتے ہوئے پاکستان میں ایسا نہ ہو کیونکہ یہ اس بدلتے ہوئے پاکستان ہی کا کارنامہ ہے کہ ملکی عوام نے غیر ملکی سازش کے تحت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ملک پر ایک امپورٹڈ حکومت کے مسلط کرنے کا سوشل بائیکاٹ کردیا ہے ان کے حقیقی نمائندوں نے ایسی پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس سے حب الوطنوں اور غداروں کا فرق برقرار رہے گا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ایک انار سو بیمار کے مصداق اس حکومت کا زیادہ عرصہ چلنا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائے گا۔ اس لئے بغض عمران کے چکر میں جو پارٹیاں اس وقت اکھٹی ہوئی ہیں یہ ایک غیر فطری اتحاد ہے جس کا زیادہ چلنا ممکن نہیں، اب تو یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ اینٹوں سے اینٹیں بجانے کی دھمکی دینے والے مسٹر ٹین پرسنٹ کو دوبارہ ایوان صدر کا مہمان بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں یعنی ایک بار پھر پاکستان کے صدارتی منصب کا تقدس دھوم دھام سے ناپاک کرنے کی کوششوں کی شروعات کردی گئی ہے۔ اب کیا یہ سب کچھ پاکستان کے آئین کا قد بڑھانے اور جمہور کے جذبات سے کھیلنے کے لئے نہیں کی جارہی ہے اور کیا ایسا کرنا ان اداروں کی عزت نفس پر براہ راست حملہ کرنے کے مترادف نہیں جنہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی اور یہ دھمکی صرف ملک دشمنوں کو خوش کرنے اور ان سے داد و تحسین حاصل کرنے کے لئے دی تھی اب اس طرح کے کرداروں کو دوبارہ ملک کا صدر بنانا کیا اس دھمکی کا انعام نہیں ہے اگر ایسا ہو گیا تو اس ملک کی سلامتی اور خودمختاری کا کیا بنے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں