یہ اسکول کے بھاری بستے۔۔۔ 146

ترکی: خود انحصاری میں پنہا سبق

ترک صدر طیب اردگان کی اقتصادی، تجارتی ، معاشرتی، سیاسی پالیسیوں اورفلسطین پر اسرائیلی قبضہ پر دوٹوک موقف اختیار کرنا ترک عوام اور دیگر ممالک میں بہت مقبول ہے پھر کشمیر پر بھی وہ ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں۔ شاید امریکہ کو ترکی کی یہ آزاد خارجہ پالیسی پسند نہیں حالانکہ ترکی نیٹو کا اہم ملک ہے۔ماضی قریب میں واشنگٹن حکام نے ترکی پر معاشی دباﺅ ڈالتے ہوئے اسٹیل اور ایلومینیم برآمدات پر20 اور 50 فی صد محصول لگا دیاتھا۔اس پابندی کے بعد ترکی کی معیشت تنزلی کا شکار بھی ہوئی۔ترکی کرنسی لیرا کی قدر میں خاصی کمی ہو گئی۔ اس مسلسل کمی سے ترک معیشت کو بہت مسائل کا سامنا ہو ا۔ اس صورتِ حال سے یورپی منڈیوں میں خاصی ہلچل نظر آئی۔ ترک امریکی تنازعہ کے اثرات بینکنگ سیکٹر تک بھی پہنچ گئے۔اس پس منظر میں صدر طیب اردگان نے عوام سے کہا کہ وہ اقتصادی دشمنوں سے خوفزدہ نہ ہوں۔ امریکی ڈالر ہمارا راستہ نہیں روک سکتا نیز یہ کہ اب ان کے خلاف ہماری بھی قومی جنگ ہے۔ اپنے اوپر عائد پابندیوں کا بھر پور جواب دیتے ہوئے انہوں نے امریکی الیکٹرانک اشیاءکے بائیکاٹ کا اعلان کر تے ہوئے یہ یادگار الفاظ کہے تھے ” اگر امریکہ کا آئی فون مارکیٹ میں ہے تو جنوبی کوریا کا فون سسٹم پھر ہمارا اپنا فون سسٹم بھی ہے“۔ نیز یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ معیشت کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے ہم پر اقتصادی جنگ مسلط کر رہا ہے۔ لیکن ہم جنگوں سے گھبرا کر اپنے موقف سے نہیں ہٹیں گے۔ ترکی پر عائد اسٹیل اور ایلومینیم ڈیوٹیوں کو دوگنا کرنے کے جواب میں طیب اردگان نے ترک عوام کو ک±ل امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی اپیل کے ساتھ امریکی مصنوعات کی درا?مدی محصولات کو دوگنا کر دیا۔پھر حالات نے ثابت کیا کہ ترکی لیر ے کا عدم استحکام عارضی تھا۔ ترکی لیرا کوئی پہلی مرتبہ اس صورتِ حال کا شکار نہیں ہوا۔ 1995 سے 1996 کے دوران اور پھر 1999 سے 2004 میں اس سے بھی بری حالت ہو گئی تھی۔ ماضی میں بھی لیرا عدم استحکام کا شکار ہوا بلکہ ” لیروں لیر “ ہو گیا۔یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی ہے کہ دو مواقع پر ترکی لیرا دینا کی سب سے زیادہ بے وقعت کرنسی بن کر رہ گیا تھا۔تاریخ گواہ ہے کہ معاشی طور پر مقروض ملک خواہ کتنا ہی آزاد ہو وہ ہمیشہ ” قرض دینے “ والے کے اشاروں پر نہ چاہتے ہوئے بھی چلتا ہے اور اگر کبھی وہ اپنی ” من مانی “ کی کوشش کرے تو سب سے موثر ہتھیارا±س کو دیا گیا قرض ہی ہوتا ہے۔ پھر جلد ہی من مانی کرنے والی حکومتیں واپس جی حضوری پر آ جاتی ہیں یا اپنے ہی ملک میں عبرت کا نشان بن جاتی ہیں۔پھر نئے لوگ حکومت میں آجاتے ہیں اور یہ چکر چلتا ہی رہتا ہے۔یہی دو مرتبہ ترکی کے ساتھ ہوا لیکن آفرین ہے موجودہ صدر طیب اردگان پر کہ انہوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر خارجی اور اقتصادی دباﺅ کے باوجود سر ا±ٹھا کر جینے کا عزم کر لیا۔ ایک محاورہ ہے کہ ” ایک در بند تو سو در کھ±لے “۔صدر اردگان نے اِس پر عمل کیا۔تجارتی اعتبار سے ڈالر کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن متبادل ہمیشہ موجود ہوتے ہیں۔صرف انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی ملک کی معیشت کا ایک قابلِ قدر حصہ تجارت یعنی درآمدات و برآمدات ہے۔اسی لئے ترک صدر نے اپنی تجارت کے لئے دوسرے ممالک کو دعوت دی۔انہوں نے روس، ایران اور دیگر کو تجویز پیش کی کہ ہم آپش میں اپنی مقامی کرنسی کے ساتھ تجارت کرتے ہیں تا کہ ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کیا جا سکے۔اس تجویز پر روس کے صدر نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران ہی اپنے ملک کو عزت دلواتے ہیں اور وہی اسے ذلّت کی پستیوں میں گراتے بھی ہیں۔عوام کا کردار صرف انتخاب کی حد تک ہے پھر یہ حکمران کا کام ہے کہ مصیبت و آزمائش میں وہ اپنے عوام کا کس طرح حوصلہ بلند رکھتے ہیں۔کیسے خود بھی اپنی آسائشوں کو ختم کرتے ہوئے عوام کے لئے عملی نمونہ بنتے ہیں۔اور ثابت کرتے ہیں کہ ’ ’ عوام کا فیصلہ“ درست تھا۔اس تمام صورتِ حال کا سامنا پاکستان کو بھی ہے۔ہم بھی ’ دباﺅ ‘ میں ہیں۔گو کہ ہماری حکومت اقتصادی مشکلات میں گھِری ہے لیکن اگر وہ کسی اندرونی اور بیرونی دباﺅ میں آئے بغیر پاکستان کو عزت دلانے والا کوئی انقلابی قدم ا±ٹھاتی ہے تو یقین کیجئے کراچی سے خیبر تک تمام عوام ان کے ساتھ ہو گی۔بس ترک کی طرح عزم کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں