’ تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں۔ ‘
نیت شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
نامور غزل کے شاعر ناصر کاظمی صاحب کی یہ غزل پاکستان کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ پہلے مصرعے میں حکومت، وزرائ اور مشیروں سے ایک حسرت بھرا خطاب ہے کہ ہائے! کیا کیا امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں۔ مگر وائے ناکامی کہ سب خاک میں ملتی نظر آ رہی ہیں۔ گفتگو میں محاورہ ’دل سے اتر جانا‘ برے سلوک کے حد سے گزر جانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔ جب پاکستان کے عوام یہ کہنے لگیں تو اندازہ لگائیے کہ کس قدر بد دل ہو کر یہ کہا جا رہا ہو گا۔ یہ مصرع ارباب اختیار کے لئے ایک ’عوامی انتباہ‘ ہے۔ ٹیکسٹائل کے کارخانوں اور کاروبار کی تالہ بندی نہ کبھی عوام نے از خود کی نہ وہ اس کے متحمل ہی ہو سکتے ہیں۔ اکثریت روز کے روز کام کی اجرت وصول کرتی ہے۔ فیکٹریوں، دکانوں، منڈیوں میں بالواسطہ اور بلا واسطہ روزانہ کی بنیاد پر اجرت ملتی ہے۔ بقول غالب:
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
کے مصداق عام آدمی کو اب کوئی دلچسپی نہیں رہی کہ اسلام آباد اور صوبائی ’حکمران‘ کیا سوچ رہے ہیں؟ ڈالر کا کیا ریٹ چل رہا ہے؟ کس بڑی شخصیت نے کتنی رقم بیرون ملک بھجوائی؟ نہ ہی انہیں اس سے کوئی دلچسپی ہے کہ نامور ’کرتے دھرتوں‘ کی ملک اور بیرون ملک کیا کیا جائیدادیں ہیں۔ انہیں تمام حکومتوں نے محض آٹے، دال، چینی کے مسئلہ میں الجھائے رکھا۔ مشرف دور سے اب تک آکاس بیل کی طرح بتدریج بڑھتے ہوئے سوئی گیس اور بجلی کے بلوں نے جینا محال کر رکھا ہے۔
اب تو اکثریت کی حالت نا قابل بیان ہو چکی ہے۔ پچھلے دنوں گیس بلوں میں ہوشربا اضافے پر حکومتی حلقوں نے مگر مچھ کے آنسو ضرور بہائے لیکن اسی کا تو افسوس ہے کہ تمام حکومتیں یہی کرتی آئی ہیں : ”کمیٹی بٹھا دی ہے“ ، ”دیکھ رہے ہیں“ ، ”مسئلہ اتنا شدید بھی نہیں“ ، ”ہو جائے گا“۔ معذرت کے ساتھ اسی لئے تو عام آدمی کے دل سے یہ نکل رہا ہے : ’تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں‘۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں!
ماضی میں عوام نے جب ہمارے ملک کے ارباب اختیار کو اپنے دل سے اتارا تو پچھلے گڑے مردے اٹھ کھڑے ہوئے اور جلد ہی ”وہ“ حسرت کی تصویر بنے تمام کروفر بھول کر ماضی کے دھندلکوں میں غائب ہو گئے۔ پورے ملک میں پچھلے برس، موسم گرما میں بجلی اور عوام کے بیچ ’پکڑن پکڑائی‘ کا غضب کا رن پڑا۔ تمام میچوں میں بجلی نے ہی میدان مارا! دیکھتے ہیں کہ رواں سال اس کھیل کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے! ادھر پاکستان کے کئی ایک چھوٹے بڑے شہر بشمول اسلام آباد کے ’عوامی‘ علاقوں میں گزشتہ سردیوں میں نقارہ بجا کر سوئی گیس کی ’چھپن چھپائی‘ کا آغاز ہوا جس میں وہ چند ہی گھنٹے آتی تھی۔ اس کھیل میں ایک روز جب سوئی گیس تقریباً پورے دن ہی رہی تو بے ساختہ یہ شعر زبان پر آ گیا:
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
ناصر کاظمی کی یہ غزل کیسے کیسے عوام کی بے چارگی اور تکالیف کی غمازی کرتی ہے اس کالم میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بس مقطع پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا:
آ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
عام طور پر دیکھا، سنا اور پڑھا تو یہ ہی ہے کہ کسی مسئلہ پر لوگ رو دھو کر چپ ہو گئے اور اس کے عادی ہو گئے۔ لیکن صاحب! ہر اک مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ قوموں کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے! کبھی یوں بھی ہوا ہے کہ سیلاب کے بعد جب چڑھے دریا اترتے ہیں تو وہ اترتے وقت چڑھے دریا سے زیادہ خطرناک ہو جاتے ہیں۔ وہ وہ تباہیاں پھیرتے ہیں کہ الامان الامان۔ پھر ایسے میں کوئی افسوس، کوئی پچھتاوا کام نہیں آتا۔ عوام اس ’اترتے دریا‘ کو انقلاب کہتے ہیں۔
ٹی وی پر گفتگو کرنے والے کبھی کبھار تبصروں میں انقلاب کا بھی ذکر کر دیتے ہیں! اور یہ انقلاب ایک دن میں نہیں آتا۔ شاید انہیں علم ہی نہیں کہ انقلاب فرانس ( 5 مئی 1789 سے 9 نومبر 1799 ) میں بلکتے سسکتے اور ٹیکسوں کے مارے عوام نے پارلیمان کے ارکان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس انقلاب کا ایک مقصد فاقہ زدہ عوام کا روٹی پانی کا حصول بھی تھا۔ بادشاہت اور عوام دشمن نظام حکومت عوام کے آگے ٹھہر نہ سکے۔ وہ الگ بات ہے کہ انقلاب کے نتیجے میں ’ابھرنے والے‘ نپولین بونا پارٹ ( 1821۔ 1769 ) نے 1799 میں فرانس کے سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد آگے چل کر 1804 میں عوامی امنگوں اور انقلاب کے نعروں کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود اپنے آپ کو شہنشاہیت کا تاج پہنا لیا! بقول شیون رضوی:
لے آئی پھر کہاں پر قسمت ہمیں کہاں سے
یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے
لہٰذا ہمارے ہاں کے سیاستدان انقلاب کا لفظ سوچ سمجھ کر ادا کریں۔ ہمارے ہاں بھی مہنگائی کے ساتھ عام آدمی کی زندگی مشکل تر بنائی جا رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کا حصول نا ممکن بنا دیا گیا ہے۔ انصاف اور قانون طاقتور کے لئے الگ اور کمزور کے لئے الگ۔ تو پھر پبلک دو میں سے ایک کا انتخاب کرے گی : انقلاب فرانس یا پھر حجاج بن یوسف کا انتظار۔
120