کاغذ پہ لکھے ہوئے خوبصورت الفاظ کے ذریعے ہم داستانِ الف لیلہ کی تصوراتی مسحورکن پرفریب دنیا میں ایسے کھو جاتے ہیں جیسے یہ سراب نہیں حقیقت ہے۔ ایسا ہی آج کے سوشل میڈیائی دور کی کہانی ہے جو کہ صحافت میں در آئی ہے۔
اگر آپ کو سلیقے سے لکھنا یا بولنا آتا ہے، اس سے بڑھ کر پورے تیقن سے جھوٹ کو سچ بنانے کا کامل ہنر آتا ہے اور آپ ایک کلٹ نما سوچ کے حق میں سجا سنوار کر جھوٹ کی داستان لکھ سکتے ہیں یا پھر یوٹیوب کے چینل پہ ولاگ کی صورت ملا دوپیازہ کی کہانیاں ب±ن سکتے ہیں تو آج کے دور میں اور بازارِ کذب میں کامیابی اور دولت آپ کے قدم چوم سکتی ہے۔
اگرچہ اس میدان میں ہر کوئی اپنا اپنا مہنگا چورن لے کر بیچ چوراہے پہ دوکان لئے بیٹھا ہے لیکن چند ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے قلم کی عظمت کی لاج نہ رکھتے ہوئے خود کو سرِ بازار بیٹھی جسم فروش طوائف سے بدتر ثابت کیا ہے۔ نہ صرف قلم کی حرمت پر داغ لگایا ہے بلکہ پاک دامن دھرتی ماں کو بھی بیرونی آقاو¿ں کی خوشنودی کے لئے بیچ ڈالا ہے۔
آج کل آپ دیکھتے ہوں گے کہ سی گریڈ فلموں کے اداکاروں جیسے چند پاک فوج کے بھگوڑے یا ذاتی عناد کے مارے افراد صرف اس لئے عسکری شعبہ کے افسران کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کی پہنچ ویوز اور سبسکرپشن بڑھ جاتی ہے۔
مہینہ میں کروڑوں کمانے کا اس سے آسان نسخہ اور کوئی نہیں۔ عمران ریاض اس ماڈل کی ایک نمایاں مثال ہیں جو ملک کے اندر بیٹھ کر خوب فیضیاب ہوئے اور پھر ان کی دیکھا دیکھی یہ فرنچائز لندن ٹورونٹو نیویارک واشنگٹن تک پہنچ گئی۔ اس سوچ نے ایک دو دن میں جنم نہیں لیا بلکہ بائیس برس کا سفر طے کرتے ہوئے ۹ مئی کو اوجِ کمال تک پہنچایاہے۔
لندن میں بیٹھے پاکستان سے فرار عادل راجہ ایک ریٹائیرڈ میجر نے بھی اس سوچ کو خوب کیش کیا اور ویوز کی اس ریس میں وہ حب الوطنی کی ریس ہار گئے اور انجانے ہاتھوں میں استعمال ہوگئے۔ ایسی ایک دو مثالیں اور بھی ہیں جن کا نام قابلِ ذکر نہیں لیکن دولت کے یہ پجاری ہر دن نئے تماشے کے ساتھ وطن فروشی کا دھندہ چمکاتے دکھائی دیتے ہیں۔
کینیڈا میں ایک سابق فوجی افسر ریٹائیرڈ کرنل سہیل انور جو پی ٹی آئی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور کھل کر عمران خان کے لئے اپنی حمایت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ اپنے خیالات کے اظہار کے دوران مادر وطن اور اپنی وردی پر کوئی داغ نہیں لگنے دیتے۔ خود پی ٹی آئی کے حلقے ان سے اس لئے نالاں دکھائی دیتے ہیں کہ وہ پاک فوج کو بدنام نہیں کرتے بلکہ صرف چند کالی بھیڑوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ شاید کلٹ نما سوچ ان سے اس لئے بہت زیادہ خوش نہیں۔ ہمیں دنیا بھر میں بہت سارے کرنل سہیل انور چاہئیں۔
ادھر تیزی سے پاک فوج کے خلاف ایک منظم سازش کے تحت مختلف ممالک میں غیرملکی آزاد اور نجی میڈیا کے پورٹل ایکٹو کر دئے گئے ہیں اور بریکنگ نیوز ولاگز کی شکل میں اب یہ طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا گیا ہے۔
پچھلے دنوں پھر سے ایک آزاد میڈیا ادارے نے جس میں دو پاکستانی صحافی کام کرتے ہیں نے لیفٹنٹ جنرل ریٹائرڈ شفاعت اور ان کے اہل خانہ کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی جو کہ تین سال قبل بھی پینڈورا پیپرز میں آئی سی آئی جے شائع کرچکی ہے۔ یہ ادارہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی فنڈنگ سے چلتا ہے۔
ماضی قریب میں پاکستانی صحافی عثمان منظور اور احمد نورانی جو امریکہ میں مقیم ہیں وہ گاہے بگاہے ویلاگ کے ذریعے جنرل قمر باجوہ، عاصم باجوہ اور بشری بی بی کو بھی ایکسپوڑڈ کرچکے ہیں۔
احمد نورانی امریکہ پناہ کے لئے 2017ءمیں پہنچے اور اب وہیں مقیم رہ کر فیکٹ فوکس کے لئے کام کرتے ہیں۔ تب سے لے کر گزشتہ چھ سال میں نورانی نے کولمبیا یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی بھی کیا جس کی فیس ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے میں غلط ہوں چلیں آدھی کر لیتے ہیں۔ تاہم اس تمام اخراجات کا ذریعہ آمدن بھی ایک سوالیہ نشان ہے اور صرف وہ ہی اس کا جواب دے سکتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ جنرل شفاعت جو کہ چودہ برس قبل ریٹائیر ہوچکے ہیں کہ اچانک سے اب ان کو اس معاملے میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟
شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی کہی جاسکتی ہے کہ وہ کھل کر پاک فوج کے دفاع میں سامنے آئے اور ریاستِ پاکستان کا دفاع کرتے ہوئے بھارتی حلقوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ان کی یہ بات شاید چند غیر ملکی ایجنسیوں کو پسند نہیں آئی اور اس لئے اب پھر سے ان کی باقائدہ منظم طور پر کردار کشی شروع کردی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جنرل شفاعت پر لگائے گئے پینڈورا پیپرز والی پراپرٹی کے الزام کا وہ پہلے ہی ثبوت دے چکے ہیں جس میں نیشنل اسٹیڈیم کراچی کیو ایم جی پلاٹ اور لاہور فیز 5 ڈی ایچ اے والے جائداد بیچ کر بنائی گئی پراپرٹی کو دکھایا گیا تھا۔ دوران سروس انہوں نے باقائدگی سے ٹیکس ادا کیا ہے اورتمام کاغذات مہیا کئے گئے۔
یہ تمام الزامات اس وقت ایک اعلیٰ سطحی کمیشن کے سامنے پیش کئے گئے تھے کمیشن میں تمام تر دستاویزی ثبوت بھی فراہم کئے گئے اور مطمئن کیا گیا تھا کہ کہیں کوئی بے قائدگی یا کرپشن کا شائبہ تک نہیں۔
اسی طرح کی ایک اور کہانی جو گھڑی گئی تھی وہ بھارتی فلمساز اکبر آصف کی جانب سے جنرل پرویز مشرف کو ایک فلیٹ تحفے میں دینے والے اسکینڈل کی شکل میں سامنے لائی گئی تھی۔ جبکہ اکبر آصف لندن کے ہوٹل کی لابی میں سرسری طور پر کھڑے کھڑے ملے تھے۔ اس دوران انہوں نے جنرل مشرف کو مغل اعظم فلم کی ریل پیش کی جو ان±کے والد نے لاہور میں بنائی تھی۔
ان تمام واقعات اور مثالوں کو پیش کرنے کی اہمیت یوں بھی ہے کہ نجانے کتنے ایسے بے قصور کیسز ہیں جو اس طرح کی کہانیوں اور افسانوں کا حصہ بن کر معاشرے میں منہ دکھانے کے لائق نہیں رہتے۔
صحافت میں قلم وہ اوزار ہے جس کی بولی نہیں لگائی جا سکتی۔ اس کا تعلق آپ کے ضمیر اور یہ عوام کی امانت ہے۔ نہ تو یہ بیچا جاسکتا ہے نہ اس کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ اس لئے چاہے پاکستان میں ہو یا بیرون ملک، ہمیں اور آپ کو ضمیر فروش ملک دشمن نام نہاد لکھاریوں اور نام نہاد تحقیقی رپورٹرز کو منہ توڑ جواب دینا ہوگا۔
قصائی کی دوکان کے باہر بیٹھے چھیچڑوں کے انتظار میں چند بھوکے کتے جب اپنی ماں پر غراتے اور بھونکتے ہیں تو سوچئیے یہ کسی اور کے کیا وفادار ہوں گے؟
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے س±خن فروش کو مر جانا چاہئے __
