justin trudeau canada pm 550

جسٹن ٹروڈو کرپشن اسکینڈل: کینیڈین وزیرِاعظم کا قوانین کی خلاف ورزی کا اعتراف

ٹورنٹو: کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو پاکستان میں کئی وجوہات سے مشہور ہیں۔ ان کا خوش شکل ہونا تو شاید پوری دنیا میں ان کی شہرت کی ایک وجہ ہے لیکن ان کا ملالہ یوسفزئی کو کینیڈا کی اعزازی شہریت دینا اور کینیڈا کی مساجد میں جا کر مسلمانوں کے تہواروں میں شریک ہونے جیسے اقدامات کو پاکستان میں خاصی پذیرائی ملی۔
البتہ آج کل وہ ایک کرپشن تنازعے کی زد میں ہیں۔ حال ہی میں ٹروڈو کے خلاف مفادات کے ٹکراو¿ کے قوانین کی خلاف ورزی سے متعلق رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے جس میں لگائے گئے الزامات کو انھوں نے تسلیم بھی کر لیا ہے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جو کیا، ملکی مفاد میں کیا اور انھوں نے اس رپورٹ کے کچھ نتائج سے اختلاف کیا ہے۔ اب دیکھنا ہو گا کہ کیا یہ تنازعہ اکتوبر میں ہونے والے انتخابات پر اثر انداز ہو گا یا نہیں؟
کینیڈا کے ضابطہ اخلاق سے متعلق کمشنر کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایس این سی-لاویلن کے معاملے میں مفادات کے ٹکراو¿ سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس وقت کینیڈا میں جاری بحران کی تفصیلات کچھ یوں ہیں:

معاملہ ہے کیا؟
یہ قصہ اس سال کے اوائل کا ہے جب ٹروڈو نے اپنی سابق اٹارنی جنرل پر ایک ایسی کمپنی سے ڈیل کرنے کے لیے دباو¿ ڈالا جسے پہلے سے ہی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا تھا۔
لیکن جب سابق اٹارنی جنرل جوڈی ولسن رے بولڈ نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو انھیں وزیرِ اعظم کی طرف سے جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔
جوڈی ولسن نے بتایا کہ ٹروڈو اور ان کے ساتھیوں نے کئی مہینوں تک انھیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ اس کمپنی کے ٹرائل سے بڑی تعداد میں کینیڈا کے لوگوں کو بےروزگاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس سے ان کو سیاسی طور پر نقصان ہو سکتا ہے۔
جوڈی ولسن کا کہنا ہے کہ انھیں ڈھکے چھپے انداز میں دھمکیاں بھی دیں گئیں اور یہ بات اس وقت درست ثابت ہو گئی جب انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
ٹروڈو کی کابینہ کی ایک اور وزیر جین فلپوٹ بھی اس مقدمے کو وجہ بنا کر اپنی وزارت سے مستعفی ہو چکی ہیں۔
ٹروڈو کی سابق پرنسپل سیکریٹری جیرلڈ بٹس کا کہنا ہے کہ اس مقدمے میں کسی قسم کا سیاسی دباو¿ نہیں ڈالا گیا، صرف اس مقدمے سے ملکی معیشت کو ممکنہ طور پر پہنچنے والے نقصان سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اگست میں جاری ہونے والی ’فیڈرل اِیتھکس کمشنر‘ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ٹروڈو نے مفادات کے ٹکراو¿ سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
کمشنر ماریو ڈیون کا کہنا ہے کہ ٹروڈو نے براہِ راست اور اپنے سینیئر حکام کے ذریعے سابق اٹارنی جنرل کو دباو¿ میں لانے کے لیے مختلف حربے آزمائے۔

تنازعے کے اہم کردار کون؟
جوڈی ولسن رے بولڈ کینیڈا کی اٹارنی جنرل اور وزیرِ انصاف تھیں۔ کینیڈا میں برطانیہ کے برعکس ایک فرد ایک وقت میں دو عہدوں پر فائز رہ سکتا ہے۔
جوڈی کینیڈا کی پہلی مقامی وزیرِ انصاف تھیں جنھوں نے حالیہ برسوں میں قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کے دور میں ہی بھنگ اور (تکلیف سے بچنے کے لیے) مرنے میں مدد کے حوالے سے قانون سازی ہوئی۔
جنوری میں انھیں وزارتِ انصاف سے ہٹا کر کے ریٹائرڈ فوجیوں کے امورسے متعلق وزارت دے دی گئی جسے بہت سے لوگوں نے ان کی تنزلی سے تعبیر کیا۔
بعد میں انھیں لبرل کاکس سے بھی نکال دیا گیا اور اب وہ دوبارہ انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہی ہیں۔
دوسری جانب ایس این سی-لاویلن کارپوریشن دنیا کی بڑی انجنیئرنگ اور تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
اس کمپنی کو دھوکہ دہی اور بدعنوانی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ کمپنی پر 2001ءسے 2011ءکے عرصے میں لیبیا کے حکام کو جب معمرقذافی کے دورِ حکومت کے دوران مبینہ طور پر تقریباً 28 ملین پاو¿نڈز رشوت کی آفر کا الزام ہے۔
ٹرائل کا سامنا کرنے کے بجائے اس فرم نے کھلم کھلا اس معاہدے کے لیے لابیئنگ کی۔ کمپنی نے یہ مو¿قف اپنایا کہ اس نے اپنے معاملات بہتر کر دیے ہیں اور اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لے آئے ہیں۔
ایس این سی-لاویلن معاملے کا زکر کرتے ہوئے جوڈی ولسن رے بولڈ کا کہنا تھا کہ ’مجھے اپنی بنیادی اقدار کا ہر صورت پاس رکھنا ہے جو میری اخلاقی ذمہ داریاں اور آئینی فرائض سے متعلق ہیں۔ کسی کو بھی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی قیمت چکانی پڑ سکتی ہے لیکن اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے ر±و گردانی کی زیادہ قیمت چکانی پڑتی ہے۔‘
انھیں اس کی قیمت چکانی پڑی۔ اس معاملے پر بات کرنے کے بعد انھیں لبرل کاکس سے بھی نکال دیا گیا اور اب وہ دوبارہ انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے سامنے آرہی ہیں۔
ٹروڈو کے دستِ راست گرالڈ بٹس کو ایک انتہائی اہم لبرل سیاستدان کے طور پر جانا جاتا ہے۔ فروری میں ان کے مستعفی ہو جانے سے یکسر تبدیلی واقع ہوئی جب یہ افواہیں عام ہوئیں کہ بٹس نے وزیرِ انصاف پر ایس این سی کمپنی کے ساتھ ڈیل کرنے سے متعلق دباو¿ ڈالا تھا۔
بٹس وزیر اعظم ٹروڈو کے ایک انتہائی قریبی ساتھی ہیں۔ دونوں یونیورسٹی دور سے ہی اچھے دوست ہیں۔
ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 2013 میں ٹروڈو کو لبرل پارٹی کا سربراہ بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔

ٹروڈو کو ایس این سی-لاویلن کمپنی کی فکر کیوں؟
ایس این سی-لاویلن کیوبک صوبے میں ہے جو انتخابی نتائج پر خاص اثر رکھتا ہے۔ ٹروڈو کی لبرل پارٹی کو بھی اس صوبے سے انتخابی فتح سے متعلق خاصی امیدیں وابستہ ہیں۔
جب بھی لبرل پارٹی نے کیوبک صوبے میں انتخابات جیتے ہیں تو وہ جماعت کو پارلیمان میں بھی اکثریت حاصل ہوئی ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب کیوبک میں صوبائی انتخابات سے متعلق بحث عروج پرہے ولسن رے بولڈ کا یہ کہنا ہے کہ لبرل پارٹی کیوبک انتخابات کی وجہ سے ہی اس کمپنی سے ڈیل سے متعلق ان پر دباو¿ ڈال رہے تھے۔
ٹرائل کے نتیجے میں سزا کی صورت میں کینیڈین قوانین کے تحت کمپنی کا لائسنس معطل ہو سکتا تھا جس سے پھر وہ کوئی کنٹریکٹ لینے کی اہل ہی نہ رہتی اور کمپنی کے ساتھ کیے گئے معاہدے بھی منسوخ ہو جاتے۔

ٹروڈو کا موقف کیا ہے؟
ٹروڈو پہلے ہی اس امکان کو رد کر چکے ہیں کہ انھوں نے کچھ غلط کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے یا ان کے قریبی ساتھیوں میں سے کچھ نے اس کمپنی سے متعلق ملازمتوں کے تحفظ کے لیے لابیئنگ کی۔
ضابطہ اخلاق کی رپورٹ منظرِ عام پر آنے کے بعد وزیرِ اعظم ٹروڈو نے ذمہ داری قبول کرلی ہے لیکن انھوں نے رپورٹ کے کچھ نتائج سے اختلاف کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ جس طرح ہوا ہے اس طرح نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن ہم نے قوم کے معاشی مفاد میں یہ سب کیا۔‘
خیال رہے کہ جسٹن ٹروڈو سنہ 2015 میں صنفی مساوات، شفافیت اور مصالحت پسندنی کی بنیاد پر بھاری اکثریت سے حکومت میں آئے تھے۔

اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟
یہ بحران ٹروڈو کو سیاسی طور پر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ فروری اور مارچ میں ان کا دو اہم ترین وزرا مستعفی ہو چکے ہیں جس سے ان کی قیادت پر خطرات منڈلانا شروع ہو گئے تھے۔
لیکن وقت کے ساتھ وہ معاملہ (کافی حد تک) دب گیا ہے اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ وہ دوبارہ ایک مضوط رہنما ہیں۔
البتہ اب کینیڈا کے عام انتخابات سے دس ہفتے قبل کمپنی سے متعلق یہ سنسی خیز رپورٹ ایک بار پھر خبروں کی زینت بن چکی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں