قیام پاکستان سے لے کر آج تک جمہوریت خطرات سے کھیلتی چلی آرہی ہے۔ جنہوں نے جمہوریت پر قدغن لگایا۔ انہوں نے ہی جمہوریت کے یہ متوالے ہمارے سروں پر مسلط کردیئے۔ جب ان متوالوں نے آنکھیں دکھائیں اور بٹوارے کا مسئلہ آیا۔ یک دم الزامات کی بھرمار ہوئی اور چشم زدن میں منظر تبدیل ہوگیا۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ ابتداءسے یونہی چل رہا ہے۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظمؒ پہلے گورنر جنرل تو بن گئے مگر انہیں زیارت میں حبس بے جا میں رکھا گیا اور خفیہ ایجنسی کے اہلکار بطور باورچی، چوکیدار اور مالی کے تعینات کردیئے گئے، یوں زیارت جیسی جگہ پر دمہ میں مبتلا قائد اعظمؒ اپنی آخری آرام گاہ تک با آسانی پہنچا دیئے گئے اور قوم کی تسلی اور تشفی کے لئے اُن کی تصاویر تمام سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میں آویزاں کردی گئیں تاکہ قوم اپنے قائد کو سلام پیش کرتی رہے۔ ان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو غدار اور انڈین ایجنٹ کہہ کر کارنر کردیا گیا بعدازاں انہیں بھی جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ لیاقت علی خان کو بھرے مجمع میں نہایت خوبصورتی سے خون میں نہلا کر راستہ ہموار کردیا گیا اور یوں پاکستان پر قبضہ گروپ کی بالادستی قائم ہوگئی اور پھر ایک ایسا کھیل شروع ہوگیا جو آج تک کامیابی سے جاری و ساری ہے۔ پاکستان کو دولخت کردیا گیا۔ بنگالیوں کو ان کے نام سے پکارنے کی بھی ضرورت نہ سمجھی گئی بلکہ انہیں ”بنگالی“ کہہ کر گالی بنا دیا گیا۔ یوں نفرتوں کو پروان چڑھایا گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کو نکال کر دیسی پاکستانی ایلیٹ کا قوم کو غلام بنا دیا گیا۔ ملا ازم کو فروغ دیا گیا۔ لسانیت کو پروان چڑھایا گیا اور یہ سب کچھ نہایت کامیابی سے اُن لوگوں نے کیا جو آج پاکستانی عوام کو ”نیا پاکستان“ کا خواب دکھانے میں بظاہر کامیاب ہوگئے ہیں اور یوں نیا پاکستان بنانے کے لئے نئی ٹیم میدان میں اُتر چکی ہے۔
سپریم کورٹ کے ذریعہ اُن لوگوں کو پابند سلاسل کیا جارہا ہے جنہیں آج تک لوٹ مار کرنے کی اجازت بھی انہی خفیہ ہاتھوں نے دی جو آج ان کرپٹ سیاستدانوں کا کھچا چھٹا کھول کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان کو آج تک جتنا نقصان پہنچا ان کرپٹ سیاستدانوں کے سبب پہنچا جب کہ پاکستان کا 60 فیصد بجٹ لینے والے کون ہیں؟ پاکستان میں ڈیفنس ہاﺅسنگ کے نام پر کھلی لوٹ مار کون کررہا ہے، کیا کبھی یہ دوسروں کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں گے؟ یا پھر اظہار رائے کی آزادی کا گلہ گھونٹ کر یونہی سیاسی کھیل جاری رکھا جائے گا۔ آج نواز شریف اور آصف زرداری نشانہ پر ہیں مگر کیا ان خفیہ اداروں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس وقت کیوں ڈھیل دی گئی اور پھر آج اچانک کیوں حب الوطنی جاگ گئی۔ سپریم کورٹ کے تقدس پر بھی آج سوالیہ نشان اُٹھ رہے ہیں۔ ماضی میں تو جو کچھ سپریم کورٹ میں ہوتا رہا اُسے بھول جائیے آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ ہمارے چیف جسٹس فرماتے ہیں کہ ”میں حیران ہوں کہ کس طرح بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں سے آگے بڑھ کر ڈیم کمپیئن میں حصہ لیا ہے“ انہوں نے اوورسیز پاکستانیوں سے اظہار تشکر کیا مگر دوسری جانب یہ کہہ کر اپنی ہی بات کی نفی کردی کہ نہ تو بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانی اس قدر حب الوطن ہیں کہ پاکستان کی اسمبلیوں کا حصہ بن سکیں اور نہ ہی انہیں پاکستان میں کسی سرکاری عہدوں پر لگایا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے پاکستان کی شہریت چھوڑ دی ہے یعنی اوورسیز پاکستانی ڈالرز دیتے اور بھیجتے رہیں تو وہ حب الوطن اور اگر اپنے وطن میں انویسٹمنٹ کریں تو “Red Tape”، نہ حکومت میں حصہ اور نہ ہی انہیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ مل سکے گا۔ دیکھتے ہیں یہ نیا پاکستان کیسے نیا بنتا ہے اور عمران خان کب تک ”اچھے بچے“ کی طرح سب کچھ مانتے رہتے ہیں اور حکومت اپنے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کیسے اور کیونکر کامیاب ہوسکتی ہے؟ تاہم انتظار کیا جانا چاہئے، موقع دیا جانا چاہئے اس کے علاوہ وئی چارہ نہیں۔ کیوں کہ بندوق والی سرکار کا فیصلہ ہی آخری حکمنامہ سمجھا جاتا ہے۔
