پاکستان اور 8 فروری 2024ءانتخابات 152

”جمہوری اطوار“

جمہوریت نام ہے افہام و تفہیم اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرنے کا۔ اختلافات کو جمہوری اور مہذبانہ طریقے سے نپٹا دینے کا۔ مسائل پر گفت و شنید کرکے حل کرنے کی حکمت عملی پر متفق ہونے جن کا تعلق عوام سے ہو۔ سیاست اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس کا محور عوام الناس ہو۔ جمہوریت میں سیاست دان عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جن کے بھروسہ کے ووٹ لے کر وہ اس ایوان تک پہنچتے ہیں۔ جہاں انہیں عوام کی فلاح و بہبود کو مدنطر رکھتے ہوئے قانون سازی کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے ایک عام جمہوری حکومت میں پارلیمان کا ہر رکن یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے رائے دہندگان کے حقوق بلکہ ریاست اور آئین کی پاسداری اور حفاظت کا ذمہ دار رہے گا اور ہر گز اس سے انحراف کا مرتکب نہیں ہوگا اور کبھی کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے ذاتی مفادات کو ریاست کی سالمیت پر فوقیت حاصل ہو جائے۔
یونانی مفکر ہیروڈوٹس کے مطابق جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں۔ یعنی بقول امریکی صدر ابراہیم لنکن ”عوام کی حاکمیت، عوام کے ذریعے، عوام پر یا عوام کے لئے “ مملکت پاکستان آئینی طور پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کہلاتی ہے یعنی اس کا آئین اسلامی اقدار اور اصولوں پر مبنی ہے اور ایک ایسے معاشرہ کی عکاسی کرتا ہے جہاں مساوات اور افراد کے بلاتفریق حقوق کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے مگر پاکستانی تاریخ گواہی یہ دیتی نظر آتی ہے کہ حکومت دراصل سیاسی اشرافیہ کے حقوق کی ذمہ دار ہے۔ عوام یا ان کے مسائل اور حقوق حکومت کی ذمہ داری کا محور نہیں رہے۔ 1971ءمیں پاکستان کے دو لخت ہوتے وقت بھی تنازعات سیاسی اشرافیہ کے مابین ہی کھڑے ہوئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے عوام تو صرف اپنے رہنماﺅں کی انا اور ضد کے ہی بھینٹ چڑھ کر تقسیم ہو گئے۔
پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست کے جو رنگ اس مملکت پاکستان میں دکھائی دیئے وہ تو غمازی کرتے ہیں کہ کسی سیاسی اشرافیہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ملک کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے سے گریز نہیں کریں گے۔ چاہے وہ معیشت ہو، خارجی تعلقات یا ملک کی سالمیت ہر چیز داﺅ پر لگ سکتی ہے۔
اس وقت اسحاق ڈار کی واپسی کے بعد موجودہ حکومت جس طریقے سے روپے کی گرتی ہوئی ساکھ اور معاشی حالات کے بہتر ہو جانے کا ذکر کررہی ہے اس سے یہ شواہد تو سامنے آسکتے ہیں کہ اسحاق ڈار کو واپس لانے کے لئے یہ پورا میدان تیار کیا گیا۔ مفتح اسماعیل تو گویا قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کئے گئے ان سے وہ سارے فیصلے کروائے گئے ہیں جس نے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پر عملدرآمد کیا گیا۔ ڈالر کی کمیابی پیدا کی گئی، چند بینکوں کو اس کارخیر میں شامل کیا گیا اور کچھ جیبیں بھری گئیں۔ جس شان سے اسحاق ڈار کی آمد برپا کی گئی وہ یقینی طور پر پاکستان کے عدالتی محکموں پر ایک تازیانہ ہے۔ ان کا یہ بیان کہ میں پچھلے 25 سالوں سے آئی ایم ایف سے ڈیل کررہا ہوں عجب مضحکہ خیز ہے یہ وہ ہی اسحاق ڈار ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو جھوٹ بولنے کا الزام سہنا پڑا اور ایک خطیر رقم مشرف دور میں بطور جرمانہ آئی ایم ایف کو ادا کرنی پڑی۔ مشرف دور میں ہی یہ شریف خاندان کی منی لانڈرنگ کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔ اس وقت اسحاق ڈار کے خلاف تقریباً تمام مقدمے خارج ہو چکے ہیں۔
موجودہ حکومت نے قوانین کی تبدیلی میں جس سرعت کا مظاہرہ کیا ہے وہ واضح کر دیتا ہے کہ اتحادی حکومت کا مطمع نظر صرف بوجہ مہنگائی ہی تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ نہیں تھا جیسا کہ پچھلے ساڑھے تین سال میڈیا پر شور مچوایا گیا بلکہ ان تمام مقدمات سے بری ہونا مقصود تھا جو پی پی پی اور ن لیگ ایک دوسرے پر قائم کرتی رہیں۔ اس وقت ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کے تمام مقدمات میں شریف خاندان کی براہ راست شمولیت کے شواہد نہ ملنے کا اعلان کردیا ہے۔ نواز شریف ایک دفعہ پھر وزیر اعظم کے عہدے پر براجمان ہونے کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں مگر واپسی سے قبل تمام مرحلوں پر اپنی آزادی کی مکمل یقین دہانی چاہتے ہیں۔ جن یقین دہانیوں کے سبب اتحادی حکومت وجود میں آئی تھی۔ اس کے کمزور ہونے کے اشارے مل رہے ہیں، آرمی چیف کا اپنے امریکی دورہ کے درمیان بیان جاری کرنا کہ وہ اپنی مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے۔ سوال کررہا ہے کہ اس پالیسی میکنگ دورہ میں مزید کیا کچھ طے ہوا ہے؟ امریکی انتظامیہ کئی ممالک میں زک اٹھانے کے بعد یہ تو سمجھ چکی ہے کہ صرف اسٹیلبشمنٹ سے رابطے سو فیصد کامیابی کا راستہ نہیں بنا سکتے۔ تمام متعلقہ فریقین کو اس کا تو مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ پاکستان میں Regime Change کرنے سے قبل صحیح صورت حال کا اندازہ نہیں کیا جا سکا۔ آرمی چیف کی طرف سے دورہ امریکہ کے دوران یہ اعلان بھی باعث حیرت رہا کہ فوج نے سیاست سے دور رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عمران خان کو اس وقت مقبول ترین لیڈر بنانے میں یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا بھی بھرپور حصہ ہے اگر اتحادی جماعتوں کو گرین سگنل ادھر سے نہیں آتا تو تحریک انصاف اپنی کارکردگی کی نسبت اپنی پانچ سالہ حکومت کے بعد عوام میں اتنی مضبوطی سے شاید نہیں اتر پاتی۔ عمران خان کی مقبولیت کا گراف روز افزوں ترقی پر ہے۔ اندرونی اور بیرونی تمام متعلقہ فریقین پر یہ آشکارہ ہو رہا ہے کہ زمینی حقائق وہ نہیں سامنے آئے جن کی توقع کی جارہی تھی۔ ریلیوں اور جلسوں میں جم غفیر حکومتی حلقوں میں ہیجان بپا کررہ اہے۔ وزیر اعظم اور وزراءکی پریس کانفرنسوں میں سوائے عمران خان کو منظر سے ہٹانے کی خواہشوں کے کچھ زیربحث نہیں آتا۔ وزارت داخلہ کو پانچ کروڑ یومیہ کے حساب سے ایک خطیر رقم تفویض کی گئی ہے تحریک انصاف کے کارکنوں سے نپٹنے کے لئے۔ یہ وہ ہی حکومتی خزانہ ہے جس میں سیلاب زدگان کے لئے امدادی رقوم کا فقدان ہے۔ اس دفعہ وزارت داخلہ نئی حکمت عملی کے تحت ڈرون سے پاکستانی شہریوں پر آنسو گیس کے شیل برسائے گی۔ اپنے خلاف حکومت کی یہ تیاریاں عوام میں مزید غم و غصہ کو ہوا دے رہی ہے مگر عوام تو کبھی بھی سیاسی اشرافیہ یا حکومت کا مسئلہ نہیں رہے۔
ملک اور قوم سرحدوں سے وجود میں نہیں آتے، نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان ایک نظریہ کے تحت ہی حقیقت میں تبدیل ہوا۔ ذاتی مفادات جب سیاست کی سالمیت سے ٹکرانے لگیں تو ذمہ داری عائد ہوتی ہے تمام فریقین کی چاہے وہ سیاسی جماعتیں ہوں یا ادارے کہ ریاست فوقیت رکھے۔ صدر پاکستان عارف علوی جن تجاویز پر غور کرنے کی دعوت دے رہے ہیں اس پر سنجیدگی سے فکر کرنی چاہئے۔ اتحادی جماعتیں پہلے بھی میثاق جمہوریت جیسے عمل کو آزما کر کشیدگی کا شکار ہو چکی ہیں۔ اس وقت بھی پی پی پی اتحادی ہونے کے باوجود اپنے انفرادیت کو قائم رکھنے میں کوشاں ہے۔ بلاول بھٹو وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہونے سے قبل ہی امریکی انتظامیہ کو یہ باور کرانے میں مصروف رہے کہ پی پی پی ہی پاکستان کی وہ واحد لبرل پارٹی ہے جو مغربی تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عدم اعتماد کی تحریک سے لے کر فی الوقت پاکستان پیپلزپارٹی نے بڑی مہارت سے قدم اٹھائے ہیں۔ موجودہ حکومت کی نا اہلی یا ناکامی تمام اتحادی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے مگر منظرنامہ صرف ن لیگ کی کمزوریوں پر محیط ہے۔ اتحاد کے برعکس تمام سیاسی جماعتیں ایجنڈا رکھتی ہیں۔ سب کا ماضی ایک دوسرے سے مخاصمت سے بھرپور ہے، سیاسی عدم استحکام سے نکالنا اداروں کی ذمہ داری نہیں، اس کا حل صرف سیاسی جماعتوں کے پاس ہے۔ تمام قدیم طریقوں سے نکل کر کچھ نئے راستے اپنانے ہوں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 75 سالوں میں پہلی دفعہ پاکستانی بیدار ہو گئے ہیں اور اندرونی اور بیرونی تسلط سے آزادی کی جنگ کے لئے تیار ہیں۔ موجودہ حکومت کو زمینی حقائق کا ادراک کرنا ہوگا۔ پاکستان کسی بھی سیاسی جماعت کی جاگیر نہیں۔ جمہوریت عوام کی حاکمیت کا نام ہے۔ 75 سالوں سے پاکستانی عوام بعض مقتدر حلقوں کی مرضی کی حکومتوں کو بھگتے آرہے ہیں۔ صاف اور شفاف انتخابات ہی اس وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں