نہ جھکا، نہ ڈرا، نہ بکا، کون؟ 270

جمہوری ڈھال اور وہائٹ کالرز۔۔۔؟

ایسے لگ رہا ہے پاکستان میں ناپسندیدہ کام کرنے والوں نے جمہوریت کو ہی ڈھال کے طور پر استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ہر کوئی جمہوریت کا لبادہ اوڑھنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے تاکہ وہ ملکی قوانین کے شکنجے میں آنے سے محفوظ رہ سکے، یہ ہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی الیکشن کا کوئی موقع ہاتھ آتا ہے تو ہمارے ملک کی اشرافیہ اور وہائٹ کالرز کرائم میں ملوث شرفاءاپنی پوری سر دھڑ کی بازی لگا کر اس انتخابی معرکہ کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس ساری جدوجہد میں عوام کو بے وقوف بنانے پر ہی اپنی توانائیاں اور اپنا لوٹا ہوا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، یہ ایک طرح کا کاروبار بن گیا ہے اور الیکشن کے موقع پر وہ انویسٹمنٹ کررہے ہوتے ہیں اور اس انویسٹمنٹ کا فائدہ بعد میں انہیں حکومت سازی کی صورت میں مل جاتا ہے ان دنوں سینیٹ کے الیکشن ہو رہے ہیں اور کسی نے اپنے اپنے گھوڑے میدان میں اتار لیے ہیں، ہر کوئی نمبر گیم پوری کرنے میں لگا ہوا ہے ہر کسی کے ساتھ یہاں ریاست بھی ایک طرح اس پورے کھیل میں شامل دکھائی دے رہی ہے۔ ملکی مفاد کی تلوار بھی اس الیکشن اور اس کے نتائج پر لٹک رہی ہے، اس لٹکی ہوئی تلوار کے سایوں تلے سے ہر کسی نے گزرنا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ وہ تلوار کس پر گرتی ہے، اس وجہ سے اس کھیل میں شامل ہر کوئی جیت کو گلے لگانے کے لئے ہی اس دنگل میں اترا ہے اور ہر کھیل میں جیت کے ساتھ ہار بھی ہوتی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ سب کے سب جیت جائیں یا سب کے سب ہار جائیں۔ الیکشن بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی شفاف اور ملکی مفاد کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔
بہت ساری متضاد صورتحال پیدا ہو چکی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا نتیجہ کیا نکلت اہے جو بھی نکلے لیکن اس کے بعد وہی حسب روایت چیخ و پکار اور دھاندلی دھاندلی کے ڈول پیٹنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ذکر جمہوریت کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کا ہو رہا تھا، اس وقت ملک میں لاقانونیت بڑھ چکی ہے اور ملک میں سب سے بڑا جرم ڈاکہ زنی، قتل، اغوائ، چوری سے زیادہ کرپشن کا ہو گیا ہے۔ ایک اندازے اور اطلاع کے مطابق ملک کا ہر تیسرا شخص کسی نہ کسی طرح سے کرپشن میں ملوث ہے جب کہ سرکاری محکموں میں اور اس کا اور بھی خراب ہے جب کہ ہماری اشرافیہ بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی غالب اکثریت کا تو کرپشن ایک طرح سے محبوب مشغلہ بن گیا ہے ایسے لگ رہا ہے کہ ان کی نظر میں ایک تو کرپشن کوئی جرم نہیں اور دوسرا وہ تو سیاست یا پھر جمہوریت کی راگ ہی کرپشن کرنے اور خود کو کرپشن سے بچانے کے لئے الاپتے ہیں یعنی وہ اقتدار میں آتے ہی تجوریاں بھرنے اور خود کو قانون کی زد میں آنے سے بچانے کے لئے آتے ہیں اور اس کے بعد جب کبھی ملکی عدلیہ اور دوسرے ادارے اپنے حلف سے وفاداری کرتے ہوئے اس طرح کے لٹیرے سیاستدانوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں تو پھر جمہوریت کو خطرہ ہے کا ڈول پیٹنا شروع کر دیا جاتا ہے غرض ایک عجب طرح کا تماشا جمہوریت کے ان خودساختہ پجاریوں نے لگا رکھا ہے۔ پورے ملک کو ان لٹیروں کے بارے میں علم ہے لیکن افسوس کے ہمارے ملک کا قانون اور عدلیہ کا نظام اس طرح سے ہے کہ اس پراسس سے گزر کر انصاف کا حصول دیوانے کا خواب ہے یہ سیاسی لٹیرے ان قانونی موشگافیوں سے اچھی طرح سے واقف ہیں اس وجہ سے وہ اسی عدالتی نظام سے پیر کے ناخنوں سے لے کر سر کے بالوں تک کرپشن اور دوسرے گناہوں میں ڈوبے ہونے کے باوجود کلین چٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس لئے کہ بڑے بڑے قانون دان اپنے فیس کے عوض ملک دشمنوں تک کو اپنا کاندھا فراہم کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں اسی لئے تو کہتا ہوں کہ ملک میں یک طرفہ تماشہ چل رہا ہے، ٹرانسپیرنسی کی وجہ سے ساری چیزیں بے نقاب ہو رہی ہیں، بدبودار نظام کی طرح سے سیاست کے بدبودار چہرے بھی اب کھل کر سامنے آگئے ہیں، یہ بہروپیے پوری طرح سے بے نقاب ہو چکے ہیں جو لاکھوں عوام کے مجمے میں دوسرے سیاستدان کا پیٹ پھاڑ کر لوٹا ہوا پیسہ نکالنے اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا دعویٰبھی کرتے ہیں اور اس کے بعد ان ہی سے بغل گیر بھی ہوتے ہیں اب اسے کوئی منافقت نہ کہے تو پھر کیا کہے۔ یہ کس طرح کی گھٹیا سیاست ہے اس طرح کی گھٹیا سیاست کے ذریعے اقتدار تک پہنچنے والے باکردار کس طرح سے ہو سکتے ہیں۔ جھوٹ بولنا جن کا اوڑھنا بچھونا اور ریاکاری جن کا محبوب مشگلہ ہو وہ ملک اور عوام سے کس طرح سے مخلص ہو سکتے ہیں، یہ ہی رونا ہمارے ملک کی سیاست اور جمہوریت کا ہے کہ جہوریت کا کھلونا اس طرح کے لوگوں کے ہاتھ لگ گیا ہے جو اس کے اہل نہیں، جیلوں میں رہنے والے اس جمہوریت کے ذریعے اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ قانون شکنوں کے ہاتھ قانون سازی کا ہتھیار لگ گیا ہے اس سے بھی زیادہ سنگین مذاق قانون اور قانون پیدا کرنے والی اس کی ماں جمہوریت کے ساتھ اور کچھ ہو سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں