پاکستان کی سیاست فوج کے گرد گھوم رہی ہے یا فوج سیاست کے گرد گھوم رہی ہے۔ صورتحال بالکل چھری اورخربوزے والی ہو گئی ہے، چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر۔ کٹنا خربوزے نے ہی ہے۔ ہمارے ہاں جب بھی سیاست پر بات ہوتی ہے تو فوج کا ذکر آئے بغیر کوئی بات کوئی مباحثہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔ کھلے عام یا دبے لفظوں میں فوج پر اس حوالے سے تنقید کی جاتی ہے۔ بعض باتیں یا الزامات زمینی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں لیکن بعض الزامات صرف الزامات ہی ہوتے ہیں ان کا حقیقت سے دور دور تک کا کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہوتا۔ میں بحیثیت قلم کار اور پاکستانی ہونے کے ناطے ہمیشہ سے ہی اپنی فوج کا غیر مشروط حامی رہا ہوں۔ میں اپنے سیاستدانوں اور ان کی حرکتوں کو بھی اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ فوج کو کبھی بھی اقتدار یا حکمرانی کا لالچ نہی رہا، ہر بار ملک کی سلامتی ہی سوال بن کر فوج کے آگے کھڑی ہو جاتی ہے جس کے بعد فوج کے پاس براہ راست یا بالواسطہ طور پر مداخلت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا۔ فوج پر جمہوریت دشمنی کے بھی الزامات لگائے جاتے ہیں اور ٹی وی ٹاک شوز میں اکثر سیاستدان گلا پھاڑ کر یہ کہتے ہوئے دیکھے گئے ہیں کہ پاکستان میں فوج جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتی۔ میرے خیال میں یہ الزام برائے الزام ہی ہے۔ جمہوریت تو اس طرح سے پنپ رہی ہے کہ خود اپنے ہی بنائے گئے قانون کے آگے سیاستدان جمہوریت کو ڈھال بنا کر استعمال کررہے ہیں جس کی تازہ ترین مثال ”پروڈکشن آرڈر“ ہے اس سے بڑا مذاق انصاف اور قانون کے ساتھ اور کیا ہو سکتا ہے کہ مجرم اور ملزم اس آئینی اختیار کا فائدہ اٹھا کر خود اپنے ہی بنائے گئے قانون کو قدموں کی ٹھوکر بنا رہے ہیں اور تو اور اسپیکر سندھ اسمبلی جو ملزم ہے جو باضابطہ گرفتار ہے، وہ خود اپنا فیصلہ کررہا ہے کہ اس نے قیدی بن کر کس عالیشان محل میں رہنا ہے۔ اگر دہشت گردوں کے گرفتاری یا پھر انہیں فوجی عدالتوں سے سزا دینے کے لئے قانون سازی کا معاملہ ہو تو یہ سیاستدان ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرنے کے بجائے ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی پالیسی کے تحت حکومت وقت سے سودا کرتے ہیں۔ اسی طرح سے اس جمہوریت کی بدولت ہی سابق مجرم وزیراعظم نواز شریف نے دشمن ملک کے وزیر اعظم مودی کے ساتھ آنے والے پورے بارات کو بلا کسی ویزے اور اجازت کے ملک میں داخلے کی اجازت دی اور خود وزیر اعظم تنہا دشمن ملک کے بہت بڑے بزنس ٹائیکون جندال سے ون ٹو ون ملاقات کرتا ہے۔ جب کہ اس وقت دشمن ملک کا ایک نیول افسر جاسوسی کے الزام میں گرفتار بھی ہے یہ ساری لاقانونیت اور ملک کی سلامتی سے کھلواڑ جمہوریت کی چھتری تلے ہی ہوتا رہا اور اس طرح کی جمہوریت کی مثال تو کسی جمہوری ملک میں بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی۔
پاکستان میں جمہوریت کی تعریف ہی فوج سے نفرت یا اسے برا بھلا کہنا رکھ دیا گیا ہے جو کوئی فوج کے خلاف کوئی بیان داغتا ہے اسے اس کا جمہوری حق قرار دیا جاتا ہے حالانکہ کسی بھی جمہوری ملک اور جمہوری معاشرے میں اس طرح سے نہیں ہوتا جس طرح سے پاکستان میں کیا جاتا ہے اس جمہوریت کی بدولت ہی آج ملک قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اسی جمہوریت کی وجہ سے قومی خزانہ لوٹنے والوں کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ میثاق جمہوریت کے نتیجے میں احتساب بیورو کے چیئرمین کا تقرر ان لوگوں کے سپرد کردیا گیا جو خود کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جمہوریت کی چھتری کے نیچے رہنے والے کرپشن کے خاتمے کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں ملک کو تباہ و برباد کرنے کی تو داستانیں بھری پڑی ہیں، میں تو فوج کی مداخلت کے جواز کے لئے چند مثالیں پیش کررہا ہوں، میں دعوے کے ساتھ یہ بات لکھ رہا ہوں کہ ہماری فوج ملک اور قوم سے محبت میں سیاست اور جمہوریت سے بہت آگے ہے۔ یہ فوج کی مداخلت ہی ہے جس کی وجہ سے یہ ملک ابھی تک باقی ہے اور دشمن کو بھی اس کا اچھی طرح سے ادراک ہے کہ فوج کو قابو کئے بغیر وہ اپنا مقصد پورا نہیں کرسکتے۔ اسی وجہ سے دشمنوں نے اپنی توپوں کا رخ پاکستانی فوج کی جانب کردیا ہے۔ اور دشمن ہٹلر کے اس معروف جملے ”کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنا دو کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے“۔ کو مدنظر رکھ کر کارروائی کررہا ہے۔ جس کی زندہ مثال پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) ہے جس کا ماسک پہن کر ملک دشمن قبائلی علاقوں میں وارداتیں کررہے ہیں۔فوج کے خلاف بھونکنے والے سیاستدانوں اور میڈیا اینکرز اور صحافیوں کی پذیرائی کی جاتی ہے، مغربی میڈیا انہیں ہیرو کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں گزشتہ روز پروڈکشن آرڈر پر قدغن لگانے کا حکومتی فیصلہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہورہا ہے۔ ملک کی موجودہ جمہوریت اور اس کے طور طریقے ملک کی سلامتی کے لئے سوالیہ نشان بنتے جارہے ہیں اس طرح کی صورتحال میں بھی اگر فوج خاموش رہتی ہے تو ان کی خاموشی پر بھی سوال اٹھیں گے جب ساری صورتحال واضح ہو گئی ہے کہ ملک کو قرضوں میں ڈبونے والے کون ہیں؟ تو پھر ان کے خلاف کارروائی کے لئے کس قانون کا انتظار کیا جارہا ہے ان کے مقدمات فوجی عدالتوں کے سپرد کیوں نہیں کئے جاتے؟ کیوں انہیں افراتفری کے لئے کھلا چھوڑا جارہا ہے؟ ملک اور عوام پہلے ہے، جمہوریت اور سیاست نہیں۔ لعنت ہے اس طرح کی سیاست اور جمہوریت پر جو ملک اور عوام کی تباہی اور چند خاندانوں کے عروج کا باعث بنے اب اس مذاق کو نیست و نابود کردینا چاہئے۔
