7 فروری کو مذکورہ آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کو وقار سیٹھ کے فیصلہ کو نظر انداز کرتے ہوئے قومی اعزاز کے ساتھ سپردخاک کردیا گیا۔ یوں صدر پرویز مشرف کی یہ خواہش پوری کردی گئی کہ وہ اپنے ملک میں دفن ہونا چاہتے ہیں۔ یقیناً وہ اپنی زندگی میں پاکستان واپس نہ آسکے اور ان کے مخالفین کم از کم اس حد تک کامیاب ضرور ہوئے کہ ان کا راستہ روکے رکھا مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سابقہ فوجی جنرلوں اور جنرل پرویز مشرف کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں جہاں سنگین غلطیاں کیں وہیں انہوں نے ملک کی معیشت کو بھی مضبوط کیا۔ ان کو غلطیوں پر نظر ڈالیں تو سابق سیاستدانوں کو این آر او دینا، اکبر بگٹی کا قتل، لال مسجد آپریشن، سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کو حبس بے جا میں رکھنے کے الزامات ان پر لگائے جاتے ہیں۔ امریکہ کو اڈے دینے کا الزام بھی ان پر لگایا جاتا ہے مگر ہمارے بڑے بڑے چینلز پر بیٹھے سینئر صحافی تجزیہ کرتے ہوئے آنکھوں پر پٹی کیوں باندھ لیتے ہیں۔ وہ یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ پاکستان میں جسٹس سسٹم میں جو خرابیاں پیدا ہوئی، کیا افتخار چوہدری اس کے ذمہ دار نہیں ٹہرئیے، لال مسجد پر حملہ یقیناً غلط قرار پایا مگر کیا اس بات کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ ملک کے دارالخلافہ میں ڈنڈے بردار نقاب پوش خواتین، شہر میں دندناتی پھریں اور غیر ملکی سفارتی خواتین کو ہراساں کریں۔ ہاں البتہ اکبر بگٹی کا قتل اور امریکہ کو اڈے دیئے جانے کے بارے میں سوالات ضرور اٹھتے ہیں مگر پھر ماضی میں جائیں تو ایوب خان، یحییٰ خان اور جنرل نیازی یاد آتے ہیں۔ جنہوں نے جنرل مشرف سے بڑی غلطیاں کیں۔ کسی نے مادر ملت کو قتل کرایا، کسی نے ملک کو دولخت کردیا تو کسی نے پاکستان بھر میں افغانیوں کو بسا کر آج پاکستان کی صورت بدل ڈالی اور ملک کو دہشت گردی کی لپیٹ میں دے دیا۔ جہاں مذہبی جنونی دندناتے پھر رہے ہیں اور آج فوج بھی ڈری بیٹھی ہے۔ کیا ان کے خلاف کبھی کوئی آواز اسمبلی کے فلور یا سینیٹ سے سنی گئی۔ نہیں بلکل نہیں، بلکہ انہیں بھی فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا، مگر جنرل مشرف کے بارے میں یہ پیش گوئی کردوں کہ انہیں 7 فروری کو دفن تو کردیا گیا مگر جو نفرت مشرف کے خلاف حکومتی حلقوں میں دیکھی گئی، کوئی بعید نہیں کہ کل حالات بدلیں تو انہیں تو ان کی لاش کو قبر سے نکال کر سیٹھ وقار سے کئے گئے فیصلہ پر عمل درآمد بھی کردیا جائےکیونکہ ہمارے ملک کی یہی ریت اور روایت رہی ہے۔ ہمارے نام تو مسلمانوں والے ہیں۔ ہم اپنے نبی سے محبت کے بھی دعویدار ہیں۔ ہم ملک میں اسلامی نظام بھی چاہتے ہیں مگر ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم انتہائی بدتہذیب، جاہل اور کرپٹ قوم میں جو کہ بے حسی کی اعلیٰ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ رہا سوال ہمارے سینئر تجزیہ نگاروں کا جن میں کئی نام سرفہرست ہیں اور جن سے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔ انہیں بغض مشرف کی بیماری ہے۔ انہیں پاکستانی فوج سے اتنی تفرت نہیں جتنی جنرل پرویز مشرف سے رہی ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی صحافت کو جلا جنرل پرویز مشرف نے بخشی۔ انہیں یہ اختیار اور اظہار رائے کی آزادی بھی جنرل پرویز مشرف نے دی کہ جس کی بدولت انہوں نے اپنی قیمتیں بڑھائیں اور آج ان کے ٹھاٹ باٹ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ صحافی آج ڈبل کیبن کے علاوہ گھر سے نہیں نکلتے۔ ان کا ایک چہرہ نہیں بلکہ انہوں نے اپنے چہروں پر کئی ایک نقاب چڑھا رکھے ہیں۔ میرے اس کالم کے جواب میں یقیناً یہ کہا جائے گا کہ میں تو پروفیشنل صحافی ہی نہیں ہوں تو میں اس حقیقت کو ماننے کے لئے تیار ہوں اور خدا کا مشکور ہوں کہ میں ایسا پروفیشنل صحافی نہیں ہوں کہ جو حق اور سچ نہ بول سکے اور حقائق کو توڑ مروڑ نہ سکے۔
184