اپنے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کو نہ تو کوئی انسان دبا سکتا ہے نہ ہی کوئی قوم اور نہ ہی کوئی ملک۔ چاہے اس کے لئے کوئی کتنا ہی شور و غوغا کیوں نہ کرلے۔ کچھ اس طرح کی کوشش بھارت کے نرالے وزیر اعظم نریندر مودی بھی کررہے ہیں انہوں نے قدیمی ہندو کہاوت ”بغل میں چھری منہ میں رام رام“ کو اس کی روح کے مطابق اپنے ہی طرزعمل سے ثابت کردیا۔ ابھی کل ہی کی بات ہے جب انہوں نے راجھستان میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ماضی میں کیے جانے والی ملاقات اور کی جانے والی بات چیت کا نہ صرف تذکرہ کیا بلکہ یاددہانی بھی کروائی اور کہا کہ یہ اب عمران خان کے پرکھنے کا وقت ہے اور خود خاموشی کے ساتھ چوروں کی طرح سے اپنے بمباروں کو پاکستانی سرحدوں پر ہاتھ لگانے کے لئے روانہ کر گئے۔ انہوں نے اپنی ہندو ذہنیت پوری طرح سے ظاہر کردی ہے۔ نریندر مودی کو یہ اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نہ تو ان کی فوج پاکستان سے جنگ کرنے کی پوزیشن میں ہے اور نہ ہی وہ خود جنگ کرنا چاہتا ہے۔ اپنے فوج کے ذریعہ یہ نمائشی اقدامات کرکے وہ دراصل اپنے ملک کے اندر سے اٹھنے والی ان آوازوں کو دبانا چاہتے تھے۔ جس کے لئے خود مودی کو ہی راجھستان میں عوامی اجتماع سے خطاب میں یہ کہنا پڑا کہ کچھ بھارتی، بھارت میں رہتے ہوئے پاکستان کی زبان بول رہے ہیں۔ یقیناً ان کا اشارہ محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور دوسرے ان تمام ہندو سیاستدانوں کی جانب تھا جو پچھلے کئی روز سے سوشل میڈیا کے ذریعے نریندر مودی اور ان کی حکومت کو ان کے احمقانہ حرکتوں سے باز رہنے اور پاکستان سے بلاوجہ پنگا نہ لینے کا مشورہ دے رہے تھے اس وجہ سے بھارتی پالیسی سازوں کو ملک کے اندر سے اٹھنے والی ان آوازوں کو دبانے کے لئے جنگ کی شکل میں ٹوپی ڈرامہ کرکے پورے ہندوستان میں جنگ اور ہنگامی حالت کی فضا قائم کرنا پڑی تاکہ نہ صرف ساری زبانیں خاموش ہو جائیں بلکہ سب کے سب مودی کے ان جارحانہ اقدامات اور ان کے اس پاگل پن پر ان کا ساتھ دیں اور ان کی تقلید کریں۔ مودی یہ ساری چالیں اپنی ہاری ہوئی بازی کو جیتنے کے لئے چل رہا ہے۔ جس کا فہم و ادراک کانگریس سمیت ان تمام سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو ہے جو ہندوستان کو ہندو دیش کے بجائے ایک سیکولر ملک دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ جہاں ہندوﺅں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت تمام اقلیتوں کے اتنے ہی حقوق ہوں جتنے ہندوﺅں کے ہیں جب کہ نریندر مودی اور ان کی پارٹی سوائے ہندوﺅں کے کسی اور کو برابری کا حق دینے کو تیار ہی نہیں۔ اسی سیاسی حربے کو جیتنے کی خاطر مودی اور ان کی حکومت جنگ کھیلنے کا ڈرامہ رچا رہی ہے لیکن اب یہ جنگ کا کھیل خود ان کے گلے اس وقت پڑ گیا جب پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے بھارت کو غیر متوقع اور انتہائی خطرناک پیغام گیا جس میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے تو جو کرنا تھا وہ کر لیا وہ اب پاکستان کے سرپرائز جواب کا انتظار کرے۔
۔۔۔ سرپرائز جواب کا انتظار کرے۔۔۔ یہ ایک اس طرح کا جملہ ہے کہ جس نے بھارت میں سب کی راتوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھتا ہوا نظر آرہا ہے کہ پاکستان کیا جوابی کارروائی کرے گا؟ کیا وہ اپنے اہداف پر میزائل داغے گا۔ یا کچھ اور کرے گا؟ خود بھارتی میدیا اس بارے میں حیران اور پریشان ہے کہ وہ بھارتی عوام کو کون سی اطلاعات فراہم کریں وہ جو خود بھارتی حکومت انہیں فراہم کرتی ہیں یا وہ جو حقائق پر مبنی ہوں۔ کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی طرح کے ردعمل کے آنے کا امکان ہے ادھر وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی جارحیت کے خلاف دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس جمعرات والے روز طلب کرلیا ہے۔ جس میں وہ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر جوابی کارروائی کی شروعات کریں گے جب کہ حکومت پاکستان نے او آئی سی یورپی یونین سمیت تمام بڑی طاقتوں سے بھارتی جارحیت سے متعلق بات چیت کا آغاز کردیا ہے جس میں وہ ان قوتوں کو یہ باور کروائیں گے کہ اب پاکستان کے پاس جوابی کارروائی کا قانون اور اخلاقی جواز موجود ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو چاہئے کہ وہ خارجی محاذ پر جیتی ہوئی اس جنگ کو گولہ بارود کے محاذ پر بھی جتینے کے لئے تمام تر وسائل استعمال کریں اور بھارت کا دہشت گرد اور مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے لائیں کہ اصل انتہا پسندی اور دہشت گردی تو خود بھارت کے اندر ہے جہاں اپنے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کو دبانے یا خاموش کروانے کے لئے باضابطہ جنگ کا ناٹک رچایا جاتا ہے لیکن اس طرح کے ہتھکنڈوں سے اندر سے اٹھنے والے طوفانوں کو نہیں روکا جا سکتا یہ ہی حال خود بھارت کا بھی ہونے جارہا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہئے کہ وہ خود بھی اس سلسلے میں امریکہ، چین، روس اور فرانس کے سربراہوں سے بات کریں اور انہیں اعتماد میں لے کر جوابی کارروائی کریں۔ اسی میں دشمن کے لئے سبق اور خود پاکستان کی سلامتی اور بقاءمضمر ہے۔
