ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جوبائیڈن نے پیر کے روز ہیوسٹن میں ”امریکن مسلم کمیونٹی“ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وہ صدارتی الیکشن جیت جاتے ہیں تو صدارت کے ہپلے روز ہی مسلمانوں پر عائد پابندیاں ختم کردیں گے اور مسلمانوں کو اپنی حکومت میں شامل کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ اس طرح جوبائیڈن نے امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
تاریخی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کوئی بھی امریکی صدر مسلمانوں کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے تمام غیر اسلامی ممالک نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے اور انہوں نے اتحاد بنا کر مسلمانوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے۔ نسل کشی کا یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے اور اس میں مرکزی کردار امریکہ ادا کررہا ہے کیوں کہ امریکہ، اسرائیل گٹھ جوڑ بڑا مضبوط ہے۔ یہودیوں کی پالیسیاں مسلمانوں کے خلاف ہیں اور وہ اس وقت بڑی معاشی قوت ہیں۔ ہر آنے والا امریکی صدر ان کے اشاروں پر ناچتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر ڈیموکریٹ امیدوار جیت جاتا ہے تو وہ اتنا ببانگ دھل کیا ہوا وعدہ پورا کرنے میں کتنا کامیاب ہوتا ہے؟ جب کہ اسے کئی اسلام مخالف قوتوں کا سامنا ہوگا۔ بہرحال ہمیں مثبت سوچ رکھنی ہوگی۔
اس کے ساتھ ”ون ملین ووٹس“ کے سلوگن کو لے کر مسلمانوں کی جانب سے مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کی قیادت افریقن امریکن کانگریس وومن ”ایلحان عمر“ کررہی ہیں ان کی معاونت جنرل کیتھ ایلی سن اور انڈیانا کے کانگریس مین ”اندرے کارسن“ کررہے ہیں۔ اس مہم کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مسلمان ووٹرز کو آگاہی دی جائی گی اور پولنگ والے دن لوگوں کو پولنگ اسٹیشنوں تک لانے میں مدد کی جائے گی اور بھرپور قوت سے ٹرمپ کے خلاف جوبائیڈن کو ووٹ ڈلوائیں گے۔
امریکن مسلم کمیونٹی کے رہنماﺅں نے اپنے خطاب میں صدارتی امیدوار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے نسلی تعصب کو دور کرنے اور مسلمانوں کو حکومتی انتظامی امور میں شامل کیا جائے۔ انہیں تحریر و تقریر کی بھی آزادی ہو، ان پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ امریکہ میں بسنے والے ملینز آف مسلم نے آج تک کبھی نقص امن عامہ کا مسئلہ پیدا نہیں کیا۔ ہمارا مذہب امن کا داعی ہے اور ہم ایک ذمہ دار دین کے پیروکار ہیں۔ آپ کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن و حدیث کے مطابق زندگیاں گزارتے ہیں۔ جس میں خیر ہی خیر ہے۔ ہمارے اوپر انتہا پسندی کا غلط الزام لگایا جاتا ہے بلکہ پوری دنیا میں کشمیر، فلسطین، ایران، عراق، یمن، شام اور لیبیا میں مسلمانوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ جس پر انسانی حقوق کے علمبردار خاموش ہیں۔
امریکن مسلم سوسائٹی کے رہنماﺅں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمان ممالک پر ٹریول بین لگا دیا جس سے ان ممالک کے مسلمان جن کے پاس گرین کارڈ اور حتیٰ کہ امریکن پاسپورٹ تھے انہیں امریکا واپس آتے ہوئے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکن ایئرپورٹس پر فیملیز کو بچوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا گیا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے ساتھ نیو کلیئر ڈیل سے اپنے آپ کو الگ کرلیا اور اس پر پابندیاں اور سخت کردیں جو کہ سفارتی اور انسانی حقوق کی سخت خلاف ورزی ہے اور پھر ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں ایک ڈرون حملہ میں شہید کردیا گیا۔
دستخطی مہم والے خط میں کہا گیا ہے کہ ہمارا سب سے پہلا مقصد ٹرمپ کو انتخابات میں شکست دینا ہے اور کسی ایسے شخص کو اقتدار میں لانا ہے جو کہ امریکنوں کی آواز سنے، انہیں کسی ڈکٹیٹر کی طرح ڈیل نہ کرے۔ اس میں امید ظاہر کی گئی ہے کہ جوبائیڈن انتظامیہ ملک سے نسل پرستی، سستا ہیتھل کا نظام، ماحولیاتی تبدیلی اور خاص طور پر امیگریشن کے معاملات کو خوش اسلوبی سے سلجھائے گی۔ امریکن مسلم کمیونٹی نے جوبائیڈن کے ایجنڈے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر تمام مسلم کمیونٹی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ٹرمپ کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جوبائیڈن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ میں نہ صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بلیک افریقن اور براﺅن کمیونٹیز کو بھی دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ حالیہ جارج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت سے پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد امریکہ میں بسنے والی اقلیتوں میں شدید عدم تحفظ پایا جاتا ہے اس واقعہ کے بعد نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر مظاہرے دیکھنے میں آئے جس میں ہر رنگ و نسل کے لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی ان کا نعرہ تھا ”ہر زندگی قیمتی ہے“۔
جوبائیڈن نے اجتماع سے کرتے ہوئے کہا کہ آئیے مل کر اس ملک میں ہونے والی نا انصافیوں کو ختم کریں اور جو زہر امریکنوں کے دماغ میں دوڑ رہا ہے اس کا خاتمہ کریں، میرے ہاتھ مضبوط کریں۔ میں ایک بہتر امریکہ کی نوید سناتا ہوں۔
آئیے ٹرمپ کے پونے چار سالہ دور کا جائزہ لیتے ہیں۔ نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوا۔ حلف اٹھانے کے بعد اسے کئی ایک چیلنجز کا سامنا تھا۔ انتخابات میں روسی ہیکرز کی مداخلت سے نیا محاذ کھل گیا۔ جس کا کوئی منطقی نتیجہ ابھی تک سامنے نہیں آسکا۔ افغانستان میں جاری طویل جنگ امریکہ کے لئے سوہان روح بن چکی تھی وہاں سے فیس سیونگ کے ساتھ فوجوں کو نکالنا ایک بہت بڑا کام تھا۔ عراق میں جاری سول وار سے نکلنا تھا، شام میں جاری جنگ کا خاتمہ، روس، چین اور ایران کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا۔
امریکی معیشت کو سنبھالا دینا، میکسیکو کے ساتھ دیوار کی تعمیر، امیگریشن میں ریفارمز، ٹیکسوں کے نظام میں بہتری لانا، ہیلتھ سسٹم کو بہتر بنانا۔ دوسرے ممالک میں قائم امریکی کمپنیوں کو واپس امریکہ آکر کام کرنے کی طرف راغب کرنا۔ بے روزگاری اور جرائم کا خاتمہ۔ ان تمام محاذوں پر ٹرمپ انتظامیہ نے کام کا آغاز کیا جس میں کچھ کامیابی ہوئی اور بہت ساری ناکامیاں۔ ٹرمپ کے جارحانہ رویے نے امریکہ کو بہت نقصان پہنچایا۔ پہلے دن سے ہی ٹرمپ نے پریس کو آڑے ہاتھوں لیا اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ رات کے پچھلے پہر ٹوئیٹ کرکے افغانستان پر ہونے والی طالبان کے ساتھ بات چیت کو ختم کر دینا۔ افریقن امریکن لوگوں کے ساتھ آئے دن کے بہیمانہ واقعات پر ٹوئیٹ کرکے جلتی پر تیل کا کام کرنا۔ کئی متنازعہ صدارتی احکامات کو عدالتوں نے رد کردیا اس طرح ٹرمپ کو سبکی کا سامنا رہا۔ ٹرمپ امریکی تاریخ کا ایسا صدر ہے کہ جس سے کسی بھی وقت کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ اب دنیا اسے سیریس نہیں لیتی۔
پچھلے سال یوکرین کے وزیر اعظم کے ساتھ ہوئی گفتگو کو لے کر اپوزیشن جماعتوں اور میڈیا نے شور مچایا کہ صدر ٹرمپ نے ملکی مفادات کے خلاف گفتگو کی ہے اور اس سے مالی کرپشن ثابت کرنے کی کوشش کی۔ یہ معاملہ اتنا طول پکڑ گیا کہ ٹرمپ کے خلاف (Impeachment) کی تحریک پیش کردی گئی۔ اس کی اتنی طویل کارروائی ہوئی کہ کئی مہینے لگ گئے اور اس کے تذکرے دنیا بھر کے میڈیا میں رہے بالاخر جگ ہنسائی کے بعد یہ تحریک معمولی فرق سے ناکام ہو گئی مگر یہ تحریک امریکی صدر کے پروفائل میں ثبت ہوگئی۔
میں نے ٹرمپ کو بہت فالو کیا وہ ایک غیر سنجیدہ شخص ہے اس سے کئی ایسی حرکتیں سرزد ہوئیں جو امریکی صدر کے شایان شان نہیں تھیں۔ سربراہان مملکت سے ملنے کا اندازہ انتہائی بازاری، اوول آفس میں دوران پریس کانفرنس وہ مجھے صدر نہیں ایک سیلزمین معلوم ہوتا تھا جو ہر آنے والے سربراہ کو امریکہ میں بننے والے اسلحہ کو دنیا کا بہترین اسلحہ قرار دیتا اور اسے مارکیٹ کررہا ہوتا تھا بلاوجہ لمبی گفتگو کرنے کا ماسٹر ہے اپنی فنی جسمانی حرکتوں کی وجہ سے بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبول ہے۔ اس کی سابقہ زندگی بے شمار جنسی اسکینڈل سے بھری پڑی ہے۔ یہ حرکتیں عام لوگوں کے لئے تو زیادہ معنی نہیں رکھتیں مگر دنیا امریکی صدر کو اونچے کردار کا حامل دیکھنا چاہتی ہے۔ آنے والے امریکی انتخابات کو اگر عالمی منظرنامے میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت نہ صرف چین کے ساتھ معاشی اور تجارتی جنگ عروج پر ہے بلکہ دنیا کے بے شمار ممالک کے ساتھ امریکہ سفارتی تعلقات خراب کر چکا ہے۔ ساﺅتھ ایسٹ ایشیا میں بننے والے اتحاد میں شامل چین، روس، پاکستان، ایران، ترکی اور خطے کے دوسرے ممالک نے ٹرمپ کی شریانوں میں دوڑنے والے خون کو تیز کردیا ہے جس کو بلڈپریشر کہتے ہیں اور اس کے نقصانات سے سب واقف ہیں۔ آنے والے سالوں اور دہائیوں میں چین اور یہ خطہ دنیا کے نقشہ پر بڑا کردار ادا کرے گا۔ چین کی پالیسی دنیا میں کاروبار کے ذریعہ ترقی کرنا ہے نہ کہ جنگی ہتھیار فروخت کرکے اور اب چین کرونا وائرس چھوڑنے کا مبینہ الزام ثابت کرتا ہے کہ مستقبل میں جنگیں ہتھیاروں سے نہیں بلکہ مہلک وائرس سے لڑی جائیں گی۔ صدر ٹرمپ کو تازہ سروے کے مطابق جوبائیڈن کے مقابلے میں شکست کا سامنا ہے اور ہر آنے والا دن ٹرمپ کے لئے دردسر بنتا جارہا ہے۔ ٹرمپ نے صدارتی احکامات جاری کرتے ہوئے آئین و قانون کا بھی خیال نہیں رکھا۔ اس نے امریکہ میں سول ڈکٹیٹرشپ کی بنیاد ڈالی ہے جو کہ مستقبل کے امریکہ کے لئے نقصان دہ ثابت ہوگی اور اسے کمزور کرے گی۔
514