قارئین جس کا خدشہ اور پورا پورا امکان تھا، بالکل وہی ہونے جارہا ہے، یعنی جوتوں میں دال بٹنے کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے، اس طرح کے بادلوں سے سیاست کے آسمان کا بھرنا شروع ہو گیا ہے اب درجہ حرارت کے کمی بیشی کے ہوتے ہی جوتوں میں دال بٹنے کی بارش برسنا شروع ہو جائے گی، میں پہلے ہی اس غیر فطری سیاسی اتحاد کے نتیجے میں بننے والی اس غیر فطری حکومت کے بارے میں بہت کچھ لکھ چکا ہوں، بہت کچھ عرض کر چکا ہوں، اعتماد سے عاری اس حکومت جس ٹانک یا کیمیکل سے جوڑا گیا ہے وہ اتنا مضبوط نہیں کہ انہیں مزید جوڑے رکھ سکے، یہ ہی وجہ ہے کہ ہر کسی کی راہیں جدا جدا نظر آنا شروع ہو چکی ہے، خاص طور سے آصف علی زرداری کی پارٹی پہلے سے ہی اعتاب میں آنا شروع ہو چکی ہے ان کی اپنی بات منوانے یعنی ضد کرنے والی پوزیشن پہلے مرحلے میں ختم کروادی گئی ہے وہ اب بارگینگ والی پوزیشن میں نہ رہے جس کا سب سے بڑا اور زندہ ثبوت ان کا نیب سندھ کے ڈی جی کو کوشش کے باوجود ٹرانسفر کروانے اور وہاں اپنا لاڈلا لانے میں ناکامی ہے ان کو ڈرانے دھمکانے اور بندے کا پتر بنائے رکھنے کے لئے ان کے سروں پر ان کے مخالف ڈی جی نیب کی شکل میں ایک دو دھاری تلوار لٹکائے رکھنا ہے جس کا دیکھ کر کوئی اندھا بیڑی پینے اور پان کھانے والا بھی یہ آسانی سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیا ہونے جارہا ہے۔۔۔؟ اور یہ کس طرح کا کھیل ایک بار پھر شروع کردیا گیا ہے یعنی وہی نئی نوتل اور پرانی شراب والا۔۔۔ بادشاہ گر اس وقت پوری طرح سے اپنے جاہ و جلال میں آچکے ہیں اور وہ خود ان کے ذریعے ان کی اپنی قبریں کھدوارہے ہیں خود ان کے ذریعے ہی پھانسی کے پھندے تیار کروائے جارہے ہیں۔ عدل و انصاف کو زندہ درگور کرنے کے لئے خود سپریم کورٹ سے ایک تاریخ ساز غلط کام کروا کر پاکستان کے نظام انصاف کو قبر میں اتار دیا گیا اور اب جمہوریت یعنی پارلیمنٹ کے ذریعے اس طرح کی قانون سازی کروائی جارہی ہے جس سے خود پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایک اجتماعی قبر میں خود کو اتارنے کا سامان پیدا کررہی ہے۔
بادشاہ گروں نے کمال ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اب سمجھنے کے لئے ان سیاستدانوں کو دوبارہ جنم لینے کی ضرورت ہے۔ کس طرح سے سب سے بھاری ہونے کے دعویدار سندھ کے مفاہمتوں کے شہنشاہ کو اس وقت فٹ بال بنا کر اس سے کھیلا جارہا ہے یہ ہی حال گوالمنڈی کے اس دوسرے لوہے کے تاجر کا ہونے جارہا ہے جس کا اپنا بھائی ان کا بدترین مخالف بن کر بادشاہ گروں کی اس وقت پوری طرح سے چمچہ گیری یعنی سہولت کاری کے فرائض سر انجام دے رہا ہے غرض ایک عجیب طرح سے کھچڑی پکائی جارہی ہے، شادی کا پنڈال تو سجانے کی تیاری زور و شور سے کی جارہی ہے مگر معاملات صرف نکاح تک ہی محدود رکھے جائیں گے۔ رخصتی بعد میں کی جائے گی یعنی اس کی تاریخ کا بھی ابھی کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے، پڑھنے والے سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، الیکشن کروانے کا اعلان کرکے نگراں سیٹ اپ کا اعلان کردیا جائے گا۔ نگراں حکومتیں بنا دی جائے گی مگر ایک عدالتی حکم کے تحت مردم شماری یا پھر کسی اور معاملے کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی کروادیئے جائیں گے اور اس طرح سے نگراں حکومتوں کو غیر معینہ مدت تک کام کرنے کا لائسنس خودبخود مل جائے گا اور اس کے بعد دمادم مست قلندر کا کھیل شروع ہو جائے گا جس کی تان ایکسٹینشن پر جا کر ٹوٹے گی یہ ان لوگوں کا دعویٰ ہے جو اس ساری حکمت عملی سے بالواسطہ یا پھر براہ راست طور پر واقف ہیں۔
بادشاہ گر اس وقت پوری طرح سے فعال ہیں اور اپنے ہر طرح کے اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے وہ پہلے ہی اسمبلی سے ایک ”ماسٹر کی“ قانون سازی کروا چکے ہیں اس طرح کی قانون سازی جو کہ عجلت میں کروائی گئی ہے اس قانون کے ذریعے سیاستدانوں نے اپنے ہاتھ خود ہی کاٹ ڈالے ہیں اب ان کے پاس رسوائی اور تباہی کے اور کچھ بھی باقی نہ رہا، ملک اس وقت بادبانی کشتی کی طرح سے ہواﺅں کے رحم و کرم پر رہ گیا ہے، ملک کے پڑھے لکھے لوگوں کو اس صورتحال پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کس طرف جارہے ہیں، آزادی کی جانب یا پھر مزید غلامی کی صورت میں تباہی کی طرف؟
