بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، حسن عسکری بھائی کو صدارتی تمغہءحسنِ کارکردگی مبارک 125

جیل اصلاحات

معاشرے میں زندگی کے تمام شعبوں میں وقت اور زمانے کے لحاظ سے اصلاحات کی ضرورت رہا کرتی ہے جیسے صحت، تعلیم، ذرائع آمدورفت وغیرہ بد نصیب محکمہ ایسا بھی ہے جِس کا حال خاصا برا ہے۔یہ شعبہ ” محکمہ جیل خانہ جات “ ہے۔ شاذونادِر ہی کوئی جیل اصلاحات کی بات کر تا ہے۔ پولیس اور جیل خانوں کی اصلاحات متعارف کروانے کی باتیں کبھی کبھار اعلیٰ عہدے داروں کی طرف سے ہوتی رہتی ہیں۔ مگر ہر ایک مرتبہ بدلتی ترجیحات کا شکار ہو جاتی ہیں ! یوں اِن پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔سینٹرل جیل کراچی کا ذکر کرتا ہوں۔ تاریخی نوعیت کی حامل ہے۔ 1921میں برطانوی نو آبادیاتی زمانے میں خالق دینا ہال میں عدالت لگا کر مولانا محمد علی جوہر کو ڈھائی سال جیل کی سزا سنائی گئی اوراِسی سینٹرل جیل میں رکھا گیا۔ ماضی بعید اور قریب کے کئی ایک معروف سیاستدان یہاں مختلف زمانوں میں آتے رہے ہیں جیسے شورش کاشمیری۔ ایک اطلاع کے مطابق یہاںسیاسی قیدیوں، جہادی تنظیموں والے، معمولی مقدمات میں ملوث، جعلی چیک، جعلسازی اور سنگین جرائم کے مرتکب 20 ہزار کی تعداد سے زیادہ قیدی سزائیں بھگت رہے ہیں۔ معمولی نوعیت کے جرائم کی سزا پانے والے جیل میں ” جگادری استادوں “ کے ساتھ رکھے جاتے ہیں۔کم و بیش یہ ہی حال پورے ملک کی چھوٹی بڑی جیلوں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے آنے والے تیز رفتاری کے ساتھ جرائم کی
دلدل میں اترتے چلے جا رہے ہیں۔افسوس ناک نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سزا کاٹ کے باہر آنے والی اکثریت ان قیدیوں کی ہے جو رہا ہوتے ہی پھر کوئی سنگین جرم کر کے اپنے ” استادوں “ کے پاس واپس جیل میں آجاتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے جیل کے عملے اور باہر کے رضاکاروں اور مبلغوں کی مسلسل اور ان تھک کوششوں سے کچھ مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ قیدیوں نے جیل میں توبہ، نماز روزے یا اپنے اپنے مذہبی عقائد کا اہتمام کرنا شروع کر دیا ہے۔اِسی طرح جیل میں صحت مند ماحول ، معیاری خوراک کی فراہمی اور دیگر صحت مند سرگرمیوں کا کچھ تھوڑا بہت آغاز تو کر دیا گیا ہے۔ اس سے ایک فرق تو پڑا ہے کہ قیدیوں کو اِس بات کا احساس ہواہے کہ باہر والی زندگی جیل کی زندگی سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مہذب دنیا میں جیل خانہ جات ” اصلاحی مراکز “ کہلاتے ہیں۔ جہاں آنے والوں کے جرائم کے حساب سے درجہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ کسی چھوٹے جرم میں پہلی دفعہ جیل آنے والا پرانے ” استادوں “ کے درمیان رکھا جائے۔
برِ صغیر پاک و ہند پرمغل سلطنت کا دوسر ا فرماں روا ، نصیر الدین محمد ہمایوں 1530 سے 1540 تک اپنے پہلے دور میں بادشاہ رہا۔ مختلف وجوہات کی بنا پر اِس عرصہ اس نے شیر شاہ سوری کو سلطنت کا باغی اور اپنے لئے خطرہ سمجھا اور اس سے الجھتا رہا۔بالاآخر 17 مئی 1540 کو بِلگرام (ضلع ہردوئی، اتر پردیش) کے مقام پر مغل بادشاہ نصیر الدین محمد ہمایوں نے شیر شاہ پر جنگ مسلط کر دی اور خود اس کے مقابل آگیا جس کے نتیجہ میں ہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ تخت و تاج چھوڑ کر ایران چلا گیا۔ اِس طرح مغل سلطنت ، جو آج کے افغانستان سے لے کر بنگلہ دیش تک کا علاقہ تھا، اِس پر نہ چاہتے ہوئے بھی فرید خان المعروف شیر شاہ سوری کو حکمراں بننا پڑا۔یہ 22 مئی 1545 تک حکمران رہے۔اِن کی ا صلاحات میں جہاں ذرائع آمدو رفت، سڑکیں اور تیز ترین ڈاک کا نظام تھا جو کسی نہ کسی شکل میں آج تک چلا آرہا ہے، وہیں اِس خطہءزمین پر جیل خانوں کی اصلاحات بھی تھیں۔یہ اِس حکمران کا برِ صغیر پر احسان ہے۔شیر شاہ سوری کا مختصراََ ذکر اِس لئے بھی ضروری ہے کہ برِ صغیر میں جب بھی جیل اصلاحات کی بات ہو گی موصوف کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ورنہ پہلے جو سپاہی کسی بد نصیب قیدی کو زندان میں ڈالتا تھا وہی اس کے نکالنے کابھی ذمہ دار تھا…افسوس ہے کہ آج بھی بعض دوست عرب ممالک میں وہاں کے شرتے ” الشرط “ یہی کام کرتے ہیں۔ خیر یہ تو برسبیلِ تذکرہ بات تھی۔ انسان کی 1540 میں بھی بنیادی ضروریات وہی تھیں جو آج ہیں۔ جب جب انسان اپنے وسائل کی ” چادر سے باہر “ نکلا تب تب اس نے خود اپنے ہاتھوں مصیبتیں خریدیں۔جرائم ہوئے تو قید خانے بھی وجود میں آئے۔ اب ترقی کا دور ہے چاند تاروں پر کمندیں ڈال دی گئیں۔ مختلف شعبہ جات میں مزید بہتری کی راہیں تلاش کی جا رہی ہیں۔ آج کے پاکستان میں بھی واضح ” ہل ج±ل “ ہے۔ایک اہم سوال ہے کہ ہمارے جیل خانوں میں بہت ذہین لوگ قید ہیں ، وہ چھوٹی موٹی وارداتوں میں آخر کیوں اپنا آپ کھپا رہے ہیں؟ بار بار کیوں جیل کے اندر باہر ہوتے رہتے ہیں … جواب بہت آسان ہے … اپنی قید کاٹ کر ایسے نوجوان جیل سے باہر آکر در بدر ہو جاتے ہیں۔ا ن کو ڈھنگ کی تو خیر کیا نوکری ملتی، کوئی بے ڈھنگا کام تک نہیں مِلتا۔جیل سے جو اپنی قید پوری کر کے آیا ہے در اصل اس نے اپنے کیے کی سزا پا لی لہٰذا وہ نئے سرے سے زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہے۔پاکستانی قانون کے مطابق اپنے حصّے کی سزا پوری کر نے کے بعد اس کا وہ جرم مِٹ جاتا ہے…لیکن…پاکستان میں کیا سرکاری ادارے، کیا نجی دفاتر، کیا کارپوریشنیں ، کیا اتھارٹیاں، کیا دفتر یا محلہ کی دوکان …کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جیل کی قیدکاٹ کر آنے والے کو اس کے مطلب یا حسبِ منشاءکوئی ملازمت دے سکے ! انسان سماج میں ہی رہتا ہے نا؟ جیل سے واپس آنے والا لاکھ تائب ہو، اپنی ” حلفیہ توبہ “ گلے میں لٹکا لے …کچھ بھی نہیں ہو گا… خاکسار نے تو یہی دیکھا کہ ایسے شخص کو ہمارا سماج جوتے کی دھول بھی نہیں سمجھتا۔اب آپ ہی بتائیں کہ واپس آنے والے پر جیل کی قید اس پر آسیب کی طرح سے چمٹ گئی ہو تو … کر لی اس نے محنت اور مِل گئی اس کو نوکری ! تو … پھر جیل خانے کی جتنی چاہیں اصلاحات لے آیئے، نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی نکلے گا۔ پھر اب کیا ، کیا جائے؟ خاکسار کی تجویز ہے کہ سب سے پہلے تو صحیح معنوں میں جیلوں کو ” اصلاح خانے “ بنایا جائے۔ یہاں آنے والوں کو ان کی ذہنی استعداد کے مطابق کوئی ہنر یا کوئی کام سکھلا کر متعلقہ بورڈ یا ادارے سے سرٹیفیکیٹ / ڈپلومہ دلوایا جائے۔ یوں باہر آنے کے بعد یہ نہ ختم ہونے والا
ندر باہر ہونے کا منحوس چکر ختم ہو سکتا ہے۔لیکن اِس نصابی علم و ہنر کے ساتھ ساتھ اِن کی بھرپور اخلاقی تربیت بھی اتنی ہی ضروری ہے۔ یہ کوشش محکمہ جیل خانہ جات ایک مرتبہ کر کے تو دیکھے !!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں